گئی ہے۔ پس اس لئے بھی ایفاء وعدہ سے پہلے ان کا فوت ہونا کسی طرح قرین صحت نہیں ہوسکتا۔ ’’فمالکم کیف تحکمون‘‘
وجہ نہم
یہ بھی محتمل ہے کہ آیت مجیدہ میں مضاف اس جگہ محذوف ہو اور مطلب یہ ہو کہ ’’یعیسیٰ انی متوفی عملک‘‘ اس طرح قرآن مجید میں کمال فصاحت وبلاغت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کثرت سے ایسی آیتیں موجود ہیں۔ جن میں مضاف محذوف اور مقدر ہے۔ لیکن ظاہر میں لوگ سطحی نظر سے قرآن میں تدبر اور غور کرنے کے سوا ہی آیتوں کے غلط سلط معنی کر کے اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں اور اسلام کی تخریب کرتے رہتے ہیں
وجہ دہم
یہ بھی متحمل ہے کہ متوفیک مؤخر ہو اور رافعک مقدم جیسا کہ ابن عباسؓ نے اپنی تفسیر میں بذیل آیت مجیدہ اس طرح فرمایا ہے۔ ’’یعیسیٰ انی رافعک الیّ الان وممیتک بعد نزول علیٰ الارض‘‘ کہ اے عیسیٰ اس وقت تو میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور پھر اس کے بعد زمین پر نازل ہونے کے وقت میں تجھے مارنے والا ہوں۔ اس قسم کی تاخیر وتقدیم بھی بکثرت آیتوں میں مسلمہ محدثین ومفسرین ہے۔ پس اس سے قطعاً انکار نہیں کیاجاسکتا۔ تفسیر کبیر فخرالدین رازیؒ اور تفسیر درمنثور امام سیوطیؒ میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ اگر اس سے انکار کیا جائے گا تو بہت سی آیتوں کے معنی میں گڑبڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
جیسا کہ مجمع البیان میں مرقوم ہے۔ ’’اما النحویون یقولون علیٰ التقدیم والتاخیر‘‘ یعنی علماء نحو تقدیم اور تاخیر کے قائل ہیں اور اس آیت میں بھی ان کو تقدیم وتاخیر کا اعتراف ہے۔ جیسا کہ آیت ’’فکیف کان عذابی ونذر‘‘ میں نذر قبل العذاب مراد ہے۔
اسی طرح جناب خلیل اﷲ کے قول ’’بل فعلہ کبیرہم‘‘ میں جمہور مفسرین نے تقدیم وتاخیر کا اعتراف کیا ہے۔ جیسا کہ (تفسیر کبیر ج۶، مطبوعہ مصر ص۱۶۳ سطر۲۴) میں فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت میں تعلق بالشرط اور تقدیم وتاخیر مبتداء وخبر واقع ہوا ہے اور آیت میں تقدیریوں ہے کہ ’’بل فعلہ کبیرہم ہذا ان کانوا ینطقون فاسئلوہم‘‘ اسی طرح یہاں بھی تقدیم وتاخیر ہوئی ہے۔