آسمانوں پر صعود کرنا اور باوجود حظوظ نفسانیہ کے عالم قدوسیت میں سکونت کرنا یقینا ناممکن ہے۔ خداتعالیٰ نے اس لئے دنیاوی شہوات ولذات کو جناب مسیح علیہ السلام سے سلب کر دیا اور اس لحاظ سے وہ عالم السموات میں فرشتوں کے ساتھ بودوباش کرنے کے قابل ہوسکا اور اس وقت تک وہ اسی مسکن اعلیٰ میں قیام پذیر رہے گا۔ جب تک کہ امام ثانی عشر مہدی موعود علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ تب حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر نازل ہوکر مہدی موعود کی اقتداء کریں گے اور زمین کو عدل وایمان سے بھردینے میں ان کے معاون ومددگار رہیں گے۔ یہ معنی اور مفہوم بھی معقول اور قرین صداقت ہے۔
وجہ ششم
توفی لغت عرب میں اخذ شیٔ بتمامہ کے معنی میں بھی مستعمل ہوتا ہے۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں مرقوم ہے۔ ’’التوفی اخذ اوفیٰ وافیاً‘‘ پس وقوع واقعہ سے پیشتر علم علیم متعال میں تھا کہ بعض جہال جناب مسیح علیہ السلام کے حق میں یہ خیال کریں گے کہ وہ جناب جسد مع الروح کے ساتھ آسمانوں پر صعود نہ کریں گے۔ بلکہ تنہا ان کا روح بغیر جسم کے صعود کرے گا۔ اس لئے ’’دفعاً لہم ورداً علیہم‘‘ اس آیت کریمہ میں لفظ متوفیک استعمال کیا گیا۔ تاکہ جسد مع الروح کے ساتھ ان کے صعود الیٰ السماء پر دلیل اور حجت قرار پاسکے۔
وجہ ہفتم
انسان موت کے بعد دنیا میں چونکہ منقطع الخیر والاثر ہوتا ہے۔ جناب مسیح علیہ السلام بھی آسمان پر صعود کرنے کے سبب چونکہ اہل زمین کے لئے ایک حد تک بمنزلہ منقطع الاثر ہونے والے تھے۔ اس لئے بھی ممکن ہے کہ کلمہ ’’متوفیک‘‘ ان کے حق میں استعمال کیاگیا۔ ’’ہو فلا جناح فیہ‘‘
وجہ ہشتم
یہ صورت بھی ممکن ہے کہ لفظ متوفیک اس آیت میں اس لئے استعمال ہوا ہو کہ اس سے خدا کا مقصود اس امر کو ظاہر کردینا ہو کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں ایفا کرنے والا ہوں۔ اپنے اس وعدے کا جو تیرے متعلق میرے علم میں گذر چکا ہے کہ میں تجھے آخر زمان تک آسمان پر تمام اہل ادیان کے ایمان لانے کے لئے زندہ رکھوں گا اور خاص اہل کتاب کے ایمان لانے کی خبر تو خصوصیت کے ساتھ آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ میں دی