پر کھینچا جائے۔ مگر آخرت میں میرے ساتھ میرے درجہ میں ہو۔ ان میں سے ایک نوجوان نے عرض کیا کہ یا روح اﷲ وہ میں ہوں۔ فرمایا تو ہی وہ ہوگا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ صبح ہونے سے پہلے بارہ مرتبہ کفر کرے گا۔ ایک شخص نے ان میں سے کہا کہ یا نبی اﷲ وہ میں ہوں۔ فرمایا اگر تو اپنے نفس میں یہ بات محسوس کرتا ہے تو وہ تو ہی ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میرے بعد تین فرقے ہو جاؤ گے۔ دو تو خدا پر بہتان باندھیں گے اور جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ شمعون کی پیروی کرے گا اور وہ سچا ہوگا اور بہشت میں جائے گا۔ پھر خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی گوشے کے راستہ سے اٹھا لیا اور اصحاب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ یہودی شب کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تلاش میں آئے۔ پہلے تو ان یہودیوں نے اس شخص کو پکڑ لیا۔ جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ایک شخص صبح ہونے سے پہلے پہلے بارہ مرتبہ کفر کرے گا۔ چنانچہ اس نے صبح ہونے سے پہلے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بارہ مرتبہ انکار کیا۔ پھر اس نوجوان کو پکڑا۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم صورت ہوگیا تھا وہ قتل بھی کیاگیا اور سولی بھی دیاگیا۔
وجہ چہارم
آیت مذکورہ میں لفظ متوفیک صیغہ اسم فاعل ہے جو تینوں زمانوں، ماضی، حال، مستقبل پر شامل ہوتا ہے۔ پس اس لفظ متوفیک سے یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام مارے گئے۔ کیونکہ عربی قواعد کے لحاظ سے یہ معنی تب ہوسکتے اگر صیغہ ماضی کا استعمال ہوتا اور یہاں تو متوفیک اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی یوں کئے جائیں گے کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تیرا مارنے والا ہوں اور مفہوم یہ ہوگا کہ میرے سوا تجھے نہ تو کوئی مارسکتا ہے اور نہ سولی پر چڑھا سکتا ہے۔ پس لازماً متوفیک اس جگہ عاصمک کے معنی میں استعمال ہونا چاہئے۔ جیسا کہ شیعہ وسنی مفسرین ومحدثین نے بالاتفاق اسی معنی میں اس جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ ’’وذالک کذالک وانا من المصدقین‘‘
وجہ پنجم
لفظ متوفیک سے شہوات اور حظوظ بشریت کا ازالہ اور افناء بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ابوبکر واسطی نے لکھا ہے کہ: ’’یعیسیٰ انی متوفیک‘‘ سے یہ مراد ہے کہ اے مسیح تجھ سے شہوات اور حظوظ بشریت کو میں سلب اور زائل کرنے والا ہوں۔ کیونکہ کسی بشر کا باوجود شہوات کے