کہ میں نے کہا کہ خدا امیر کا بھلا کرے۔ اس آیت کی تاویل یہ نہیں ہے جو آپ نے فرمائی۔ اس نے کہا پھر کیا ہے؟ ہم نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام قبل قیامت دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اس وقت کوئی یہودی یا غیریہودی ایسا باقی نہ رہے گا۔ جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور حضرت مسیح علیہ السلام خود جناب مہدی موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوں گے۔ حجاج بولا وائے ہو تجھ پر یہ تاویل تو نے کہاں سے پیدا کی۔ میں نے کہا کہ مجھ سے یہ حدیث امام محمد باقر علیہ السلام نے بروایت اپنے آباء واجداد کے بیان کی ہے۔ حجاج نے کہا کہ یہ گوہر تو ایسے چشمہ سے نکلا ہے۔ جس میں کوئی میل کچیل نہیں ہے۔ اہل سنت کے طریق میں یہ روایت مجاہدؒ، ضحاکؒ، سدیؒ، ابن سیرینؒ اور جوہر سے تفسیر کبیر میں امام فخرالدین رازیؒ نے بھی نقل کی ہے اور فریقین میں متفق علیہ ہے۔ اس لئے صحیح اور یہی قابل عملدرآمد ہے اور اسی پر جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے۔
وجہ سوم
’’یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ اس آیت میں توفی جناب مسیح علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے لفظ انی کے ساتھ اپنی ذات مقدسہ کی طرف نسبت دی ہے۔ کیونکہ وقوع واقعہ صلیب سے قبل علم علیم متعال میں یہ قیل وقال گذر چکا تھا کہ لوگ شباہت کے شبہ میں ایک غیر مسیح کو صلیب پر چڑھا دیں گے اور اس مقتول کو مسیح سمجھ لیں گے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے اس کی حیات کے متعلق یوں شہادت دی کہ ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم‘‘ یعنی ان کو شبہ ہوا ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو سولی دی اور قتل کر دیا۔ حالانکہ مسیح علیہ السلام نہ تو سولی چڑھایا گیا اور نہ قتل کیاگیا۔ کیونکہ ’’انی متوفیک بمعنی انی عاصمک‘‘ ہے کہ میں دشمنوں سے تجھے بچانے والا ہوں۔ حدیثوں سے بھی اسی مطلب کی تائید ہوتی ہے۔ جیسا کہ (شیعہ) تفسیر قمی میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس شب کو خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا تھا۔ اس شب کے متعلق آپ نے اپنے اصحاب سے وعدہ لیا تھا۔ چنانچہ وہ شام کو حضرت کے پاس جمع ہوگئے۔ ان سب کو حضرت نے ایک مکان میں پہنچایا اور خود ایک چشمہ میں سے جو اس مکان کے کونے میں تھا۔ سر سے پانی جھاڑتے ہوئے نکلے اور فرمایا کہ مجھے وحی خدا پہنچی ہے کہ وہ ابھی تھوڑی دیر میں مجھے اٹھانے والا ہے اور یہود کے شر سے مجھے بچانے والا ہے۔ تم میں سے کون شخص اس کو گوارار کرے گا کہ وہ میرا ہم صورت بنادیا جائے۔ پھر وہ قتل کیا جائے۔ صلیب