ہے۔ ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ (بلکہ خدا نے اس کو اپنے پاس بلالیا)
تفسیر عیاشی میں ہے کہ جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔ جب حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر بلائے گئے تو اون کا ایک چغہ پہنے ہوئے تھے۔ جسے حضرت مریم علیہا السلام نے اپنے ہاتھ سے کاتا تھا اور بنا تھا۔ رنگ اس کا سیاہ تھا۔ جب وہ آسمان پر پہنچ گئے تو آواز آئی کہ اے عیسیٰ علیہ السلام اب دنیا کی زینت کو دور کردو۔ غرض مسیح علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے اور مصلوب ومقتول نہ ہونے کے ثبوت کے لئے مختلف وجوہ ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں۔
وجہ اوّل
مذکورہ آیت میں لفظ ’’رافعک‘‘ قرینہ صحیحہ ہے کہ متوفیک اس آیت میں ’’انی عاصمک من تصلک الکفار ومؤخرک الیٰ اجل اکتبہ لک‘‘ کے معنی رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر ’’متوفیک ممیتک‘‘ کے معنی میں ہو تو فقرہ رافعک بے معنی اور لغو قرار پاتا ہے اور دوسرا قرینہ ’’وما قتلوہ وما صلبوہ یقینا‘‘ بھی موجود ہے۔ جس میں علانیہ صلیب کا سلب اور قتل کی نفی بلفظ یقینا کی گئی ہے۔ اس لئے ’’ممیتک‘‘ کے معنی میں لفظ متوفیک لیا جاسکتا ہی نہیں۔
وجہ دوم
یہ ہے کہ قرآن میں آیا ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ کہ اہل کتاب میں سے کوئی شخص بھی باقی نہیں رہے گا۔ مگر یہ کہ اس کو مسیح علیہ السلام کے مرنے سے پہلے مسیح علیہ السلام پر ضرور ایمان لانا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ ابھی تک یہ وعدہ پورا نہیں ہوا ہے۔ پس لازماً یہ ثابت ہوا کہ جناب مسیح علیہ السلام یقینا مرے نہیں ہیں اور اس وقت تک برابر زندہ رہیں گے کہ تمام اہل کتاب ان پر ضرور ایمان لائیں۔ وہی زمانہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ہوگا۔ روایتوں سے بھی اسی معنی اور مطلب کی تائید ہوتی ہے۔ جیسا کہ (شیعہ) کی تفسیر قمی میں شہر بن حوشب سے منقول ہے کہ مجھ سے حجاج نے یہ کہا کہ اے شہر کتاب خدا کی ایک آیت نے مجھ کو پریشان کر دیا ہے۔ میں نے کہا کہ اے امیر وہ کون سی آیت ہے تو اس نے یہ آیت تلاوت کی۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ اور کہا کہ میں کسی یہودی یا نصرانی کی گردن مارنے کا جب حکم دیتا ہوں۔ پھر ذرا سی اس کو مہلت دے دیتا ہوں۔ پھر اس کے ہونٹ بھی حرکت کرتے نہیں دیکھتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا پتہ چلے۔ شہر بیان کرتا ہے