مسیح آسمان پر چلے گئے اور آیت مجیدہ ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم‘‘ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ جس کا خلاصہ میں نے درج کر دیا ہے۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قتل ضرور واقع ہوا ہے۔ کیونکہ لفظ شبہ آیت میں موجود ہے۔ ’’وماقتلوہ وما صلبوہ‘‘ سے یہ واضح ہوگیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام یقینا نہ تو قتل کئے گئے اور نہ صلیب پر چڑھائے گئے۔ ابن جریر، ابن منذر، عبد بن حمید، سعید بن منصور، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے اور جمہور اہل اسلام کا اسی پر اتفاق اور اجماع ہے۔
کلبی نے بروایت ابی صالح ابن عباسؓ سے نقل کیا ہے کہ اس ظالم بادشاہ کا نام ططبانوس تھا اور سیوطیؒ نے تفسیر درمنثور میں بادشاہ کا نام داؤد بن لوزا لکھا ہے۔
وہب بن منبہؒ سے منقول ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو رات کے وقت پکڑ لیا گیا کہ صبح ہوتے ہی صلیب پر چڑھا دیا جائے۔ مگر فرشتوں نے مسیح علیہ السلام کو آسمان پر پہنچا دیا اور یہودیوں کو اس کا پتہ بھی نہ لگ سکا اور وہ تکتے ہی رہ گئے۔
اختلاف ہے اس میں کہ جس کو شبہ میں سولی چڑھایا گیا منافق تھا، یا موافق۔ بعض نے لکھا ہے کہ وہ یہودی تھا اور مسیح کا سخت دشمن تھا۔
اور بعض لکھتے ہیں کہ وہ شخص جناب مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا۔ لیکن بعد میں وہ بھی منافقوں میں مل گیا تھا اور مسیح علیہ السلام نے پہلے ہی حواریوں کو خبر دی ہوئی تھی کہ کل صبح تم میں سے ایک شخص دین کو دنیا سے بیچ دے گا۔ ایسا ہی ہوا کہ صبح ہوتے ایک حواریوں میں سے یہودیوں کے ہاں گیا اور تیس درہم لے کر مسیح علیہ السلام کے مخالف ہوگیا اور تمام راز یہودیوں سے کہہ کر مسیح علیہ السلام کو پکڑوایا۔ قدرت نے مسیح علیہ السلام کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور وہ شخص منافق شبہ میں خود گرفتار ہوکر سولی چڑھادیا گیا۔
فخر رازیؒ نے لکھا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام بحکم رب جلیل جب مسیح علیہ السلام کو آسمان پر لے گئے تو لوگ تین فرقوں میں منقسم ہوگئے۔ ایک فرقہ تو مسیح علیہ السلام کو خدا سمجھنے لگا۔ دوسرا فرقہ ابن اﷲ اور تیسرے فرقہ کا یہ عقیدہ ہوا کہ مسیح علیہ السلام نہ تو خدا ہے اور نہ ابن اﷲ۔ ’’ولکنہ عبداﷲ ورسولہ‘‘ بلکہ وہ خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے اور وہ زندہ ہے بوقت ظہور حضرت