ہے تو محض بعض صفات واخلاق میں شرکت سے ظل کا نبی ہونا لازم ہوگا۔ پھر ظل کے نبی ہونے کے لئے نہ وحی کی ضرورت ہوگی نہ الہام کی نیز خدائے عزوجل کا اس کو نبی کہنا ضروری نہ ہوگا۔
۱۱… وہ کس قدر اوصاف ہیں اور کیا کیا؟ جن کے اتصاف سے انسان بروزی نبی ہوسکتا ہے؟
۱۲… اس تقدیر پر نبوت کسبی ہوگی اور ضرورت وحاجت وخدائے بزرگ وبرتر کے مبعوث کرنے کی محتاج ہوگی۔ یا نہیں؟
۱۳… اور اگر نبوت بروزی وظلی میں ظل اور ذی ظل عین ہوتے ہیں۔ تو پھر اس نبوت اور آواگون اور تناسخ میں کیا فرق ہوگا؟
۱۴… اگر آواگون بھی تسلیم کرلیا جائے تو بتائے کہ مؤخر کو مقدم کا عین کہا جائے گا یا برعکس، ہرصو رت میں وجہ ترجیح کیا ہے اور اگر بوجہ عینیت اختیار ہے تو ایک ہی ذات کا فاضل ومفضول ہونا لازم آئے گا اور یہ محال ہے۔
۱۵… اگر تقدم وتاخر ہو تو آواگون بھی ہوسکے مگر دقت تو یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک شخص کے متعدد اضلال ہونا لازم آتے ہیں۔ جو عینیت کی صورت میں محال ہے۔
۱۶… ختم نبوت بمعنی تشریعی کے منکر کا کیا حکم ہے۔ (جواب دیتے ہوئے مولوی عمر الدین مبلغ دہلی وشملہ کے ان الفاظ کو یاد رکھے گا جو انہوں نے غلمدی اسٹیج پر ببانگ دہل کہے تھے۔ یعنی انہوں نے دیو بندوں کے دست وبازو سے مجبور ہوکر وہ معنی بتلا دئیے تھے۔ جو تم نے ہزار ذلتیں گوارا کرکے نہ بتلائے۔ اس لئے کہ مرزائیت کی شہ رگیں کٹ رہی تھیں میں پھر وہی کہوں گا۔
الفضل ماشہدت بہالاعداء
۱۷… اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۳۴۵کی عبارت۔ جس میں نبوت تشریعی کا بصراحت دعویٰ کیا اور جسے آپ نے عاجز ہوکر متشابہ کہہ دیا تھا۔
۱۸… دافع البلاء ص۲۱، خزائن ج۱۸ ص۲۴۱۔ جس میں حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کی توہین بحوالہ قرآن کی گئی۔
۱۹… حدیث وقرآن میں لکھا ہے کہ: ’’مسیح جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھوں سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اسے کافر کہیں گے اور قتل کا فتویٰ دیں گے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۴۰۴) قرآن وحدیث سے اسکا ثبوت دیجئے۔