قرار دیا ہے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جسے راس مطالبات بنا کر پیش کیا گیا۔ مگر فاضل نے مطالبات پیش کرتے ہوئے شرائط پر نظر ڈالی اور نہ مضمون لکھتے وقت ملاحظہ ہو شرط نمبر۲۔ شرط نمبر۲ ہر ایک مناظر دوسرے کے مقابلہ میں قرآن کریم اور احادیث صحیحہ پیش کرے گا۔‘‘ جس کے رو سے آپ کا فرض اولین یہ تھا کہ ایسی آیات قرآنی واحادیث صحیحہ سے استدلال کرتے جس میں نبی غیر تشریعی کی خبر دی گئی ہو۔ کیا ایک آیت یا ایک حدیث بھی دعوے کے مطابق پیش کی اگر کی ہو تو اب یاددہانی کردیجئے۔ ابن عربی کی عبارت پیش کی تھی۔ جس کا جواب وہیں دے دیا گیا تھا۔ کہ ان کی اصطلاح میں نبوۃ غیر تشریعی کے وہ معنی ہی نہیں جو مرزا نے لئے۔ بلکہ ان کے یہاں نبوت غیر تشریعی ولایت کے ایک مرتبہ کا نام ہے۔ چنانچہ تصریح بھی سنا دی گئی تھی۔ پھر ملاحظہ فرمائیے۔
’’فاخبر رسول اﷲﷺ ان الرویا جزو من اجزاء النبوۃ فقد بقی للناس فی النبوۃ ہذا وغیرہ ومع ہذا لا یطلق اسم النبوۃ ولا النبی الا علیٰ المشرع خاصۃ محجز ہذالاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ (فتوحات مکیہ ج۲ ص۴۹۵)‘‘ {نبی کریمﷺ نے ہمیں بتایا کہ (سچا) خواب اجزاء نبوت میں سے ایک جز ہے تو لوگوں کے لئے نبوۃ میں سے یہ جز رویا وغیرہ باقی رہ گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی نبوت کا لفظ اور اسم نبی بجز صاحب شریعت نبی کے اور کسی پر نہیں بولا جاسکتا۔ کیونکہ نبوت میں وصف خاص (معین) تشریعی ہونے کی وجہ سے اس نام (نبی) کی بندش کردی گئی۔}
تصنیف را منصف نیکو کند بیاں۔ شیخ اکبر علیہ الرحمتہ اپنی مراد مرزا سے بہتر جانتے ہیں۔ وہ تو اس شخص پر اطلاق اسم نبوت ونبی کو بھی ممنوع قرار دیتے ہیں اور علت بتاتے ہیں کہ نبی کا لفظ تشریعی کے سوا کسی پر بولا ہی نہیں جاسکتا۔ شیخ فرماتے ہیں کہ نبوۃ ایک جز باقی ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ کامل نبوت باقی ہے۔ اگر کسی گھر میں نمک رکھا ہو تو کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ تمام شاہانہ نمکین کھانے موجود ہیں۔ اسے اختلال دماغ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ علیٰ ہذا حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی تحذیر الناس والی عبارت کا جواب بھی اسی مجلس میں دے دیا گیا تھا اور لطف یہ کہ اسی کتاب سے دیا گیا جس سے آپ من گھڑت استشہاد کررہے تھے۔ ملاحظہ تخدیر الناس ص۱۰: ’’اگر اطلاق وعموم ہے تب تو ثبوت خاتمیتہ زمانی ظاہر ہے۔ ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے اور ادھر تصریحات نبویﷺ مثل انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لانبی بعدی اوکما قال، جو بظاہر بطرز مذکور اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے۔ اسباب میں کافی ہے کیونکہ یہ مضمون درجہ تو اتر کو پہنچ گیا ہے۔ پھر اس پر