پر اجماع بھی منعقد ہوگیا گو الفاظ مذکور بسند متواتر منقول نہ ہوں۔ سو یہ عدتواتر الفاظ باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا۔ جیسے تواتر اعداد رکعات فرائض وتر وغیرہ باوجود یکہ الفاظ احادیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں۔ جیسا اس کا منکر کافر ہے۔ ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔ اب دیکھئے کہ اس صورت میں عطف بین الجملتین اور استدراک اور استثناء مذکور بھی بغایت درجہ چسپاں نظر آتا ہے اور خاتمیت بھی بوجہ احسن ثابت ہوتی ہے اور خاتمیت زمانی بھی ہاتھ سے نہیں جاتی اور نیز اس صورت میں جیسے قرأت خاتم بکسر التا چسپاں ہے۔ ایسے ہی قرأت خاتم بفتح التاء بھی نہایت درجہ کو بے تکلف موزوں ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جیسے خاتم بفتح التاء کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے۔ ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے۔
موت مانگو تو رہے آرزوئے خواب تمہیں
ڈوبنے جائو تو دریا ملے پایاب تمہیں
فاضل مناظر کیا اس عبارت کا کوئی جواب دیا گیا۔ مولانا نے اسی عبارت میں تو تمہارے بزم خویش مایۂ الناز استدلال (قرات بفتح الخاتم) کا بھی پول کھول دیا۔ اگر اس کا کوئی جواب دیا ہو تو میں دوسرا چیلنج کرتا ہوں کہ بجواب مطلع فرمائیے۔ دوسری عبارت مناظرہ عجیہ ص۱۰۳ کی سنائی گئی تھی۔ جس میں خود مصنف علام مرزا کو کافر ودجال ٹھہرا رہے ہیں۔
ملاحظہ ہو۔ امتناع بالغیر میں کیسے کلام ہے۔ اپنا دین وایمان ہے۔ کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے کافر سمجھتا ہوں۔ (مناظرہ عجیہ ص۱۰۳)
لیکن خیر اگر بالفرض والمحال ان سب عبارات کو لاجواب مان بھی لیا جائے۔ تو بھی فاضل مناظر ہی ملزم ہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے ایک دو نہیں ۸۰ صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے اسماء گرامی سنائے گئے تھے۔ جو ختم نبوت کے قائل ہیں اور کسی قسم کی تخصیص نہیں فرماتے۔ آپ نے کسی ایک صحابی یا تابعی کا بھی قول پیش کیا؟ اگر کیا ہو تو یاددہانی فرما دیجئے۔
اور طرفہ یہ کہ شرائط میں شرط نمبر۳ کے تحت میں تصریح کردی گئی ہے۔ کہ سلف صالحین وائمہ حدیث وتفسیر سے باتفاق یا بکثرت رائے جو معنے منقول ہوں گے۔ وہ ہی معتبر ہوں گے۔ انصاف سے کہئے کثرت کس طرف ہے۔ ارے جناب ہماری جانب نہ صرف کثرت بلکہ اتفاق واجماع ہے۔ یاد کیجئے۔ شفاء قاضی عیاضؒ وحجۃ الاسلام امام غزالیؒ کی وہ عبارتیں جو بھرے مجمع میں باعلیٰ نداء سنائی گئی تھیں۔ ملاحظہ ہو علامہ قاضی عیاضؒ اپنی کتاب شفاء میں فرما رہے ہیں۔