مدرسہ محمدی واقع مدارس مرائی چیٹھ ۱۳۱۱ھ میں طبع ہوکر شائع ہوا ہے۔ کہ ایسا اعتقادی شخص بشرط ثبوت عقل وعدم جنون بیشک کافر ومرتد وزندیق ہے اور جس نے اس کی تابعداری اور تصدیق کی وہ بھی مرتد ہے۔
کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کا اپنے جسم سے آسمان پر جانا اور وہاں زندہ رہنا پھر آخیر زمانہ میں اتر آنا اور امام مہدی کے ساتھ ملنا اور دجال نکلنے کے جو الوہیت کا دعویٰ کرے گا۔ اس کو قتل کرنا۔ ان امور سے ہیں جن پر ایمان لانا واجب ہے اور اس میں شک کرنا کفروارتدادا ہے اور یہی عقیدہ اہل سنت کا ہے۔
اس میں کسی ایک اہل سنت کو خلاف نہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام مر گئے اور ان کا جسم شریف زمین پر رہ گیا اور فقط ان کی روح آسمان پر گئی۔ کرکے زعم کرنا۔ نصاریٰ عقیدہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے جو قرآن شریف میں فرمایا ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ اور فرمایا ’’ورافعک الی‘‘ وہ نص قطعی ہو۔ عیسیٰ اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر جانے میں اور جو فرمایا ان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ اور فرمایا عندہ علم الساعۃ اس میں دلیل ظاہر ہے ان کے نزول پر اور اس مضمون کی بہت احادیث صحیحہ بھی آئی ہیں جو حد تواتر کو پہنچی ہیں۔ یہ صرف خلاصہ برائے معائنہ ناظرین لکھا گیا۔ جس کو مفصل کیفیت دیکھنا ہو۔ فتویٰ منگا کر تسلی کرے۔ کیونکہ وہ بجائے ایک رسالہ قابل دید ہے۔ فقط!
اطلاع ضروری
ہمارے رسالہ کے بیانات سے ناظرین کو بخوبی واضح ہوچکا ہوگا کہ مرزا تو اپنے فلسفہ کا متبع اور پیرو ہے۔ جس کو قرآنی فلسفہ واقعی طور پر بالکل بے بنیاد ثابت کرتا ہے۔ اب ان کے چیلے اپنے گروہ سے دوچار گز اونچے بلند پروازی کررہے ہیں اور مثل روافض وخوارج کے نص قرآن کی قطع وبرید پر کمر باندھی ہے۔
یعنی آیت کا اول وآخر چھوڑ کر اپنی مطلب برآری کے لئے آیہ کا ایک فقرہ لے لیا اور اسی سے اپنے دعوے کے لئے تاویل گھڑلی۔ چنانچہ ایک بے اصل رسلہ عسل مصفیٰ نام جو ان تہی منفران باطل پرست یعنی مرزائیوں کے لئے مایۂ ساز بلکہ سرمایۂ ناز افتخار ہے۔ اس کا شاہد ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ نصوص قرآنی میں اس قسم کی کارگزاری کرنے والے انشاء اﷲ تعالیٰ (مثلہ) کئے جائیں گے۔