میرے اﷲ میری نیت تو ویسی ہی ہے۔ جیسا میں ہوں۔ تو اپنے کرم سے اس کو قبول فرما کر میرے لئے ذریعہ آخرت کردے اور اس تحفہ محقرہ کی بدولت حضرات اہل بیت اور صحابہ رسول اﷲﷺ کی خوشنودی میرے نصیب کر پھر ان کے طفیل سے حبیب پاک سید لولاک کی عنایت میں اس کمینۂ عالم کو شامل کر اور مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنین واحباب وعزیز واقارب کو بخش کر مجھ کو مسرور کر اور ان گمراہان کو راہ پر لا۔ آمین! ثم آمین!
اب ہم ایک آخری نصیحت عرض کرتے ہیں کہ گم گشتہ راہ کو غایت درجہ مفید ہے۔ ہم اول عنوانوں میں طریقہ راہ حق متقین ثابت کرچکے ہیں۔ اب: الٓم ذالک الکتاب لاریب فیہ ہدی للمتقین سے آخر ولکن لا یشعرون تک قطع نظر کیجئے تو صاف ظاہر ہوجاوے گا کہ دعویٰ قادیانی محض باطل ہے اور طریقہ متقین اربعہ ائمہ ہی صحیحہ ہے۔ کیونکہ اﷲ پاک فرماتا ہے۔
یہ ہی لوگ راہ پر ہیں اپنے رب کی طرف سے اور یہ ہی نجات پانے والے ہیں۔ ’’والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ہم یوقنون ط اولٰئک علی ہدی من ربہم واولئک ہم المفلحون (بقرہ:۴،۵)‘‘ {اور جو ایمان لاتے ہیں۔ اس پر کہ اتارا گیا طرف تیری اور جو اتارا گیا۔ پہلے تیرے اور پچھلے دن پر۔ وہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہی راہ پر ہیں۔ اپنے رب کی طرف سے اور وہی نجات پانے والے ہیں۔}
اور یہ نہ فرمایا۔ وما انزل من بعدک یعنی جو بعد تیرے اترے گا۔ پس یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ قادیانی پر اترنا آیات قرآنی بوحی یا الہامی محض باطل ہے۔ جو خلاف اس آیت کے ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن قادیانیوں کا ہادی نہیں ہے۔
اگرچہ تقویٰ سے عام تقویٰ مراد ہے۔ یعنی ناقص ہو یا کامل بالفعل ہو یا عزم ونیت میں عملی ہو یا اعتقادی پس جس درجہ کا تقویٰ ہے۔ اسی درجہ کی ہدایت ہوگی۔ قرآن کی مثال بعینہ چراغ کی ہے۔ جوان اور بڈھا اپنی اپنی بینائی کے موافق چراغ سے نورانیت حاصل کرتا ہے اور اندھے کو کچھ نظر نہیں آتا۔
سعدی
گر نہ میند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ
پس قادیانی وتابعین ان کے اس آیہ کے مصداق ہیں: ’’فاما الذین فی قلوبہم زیغ فیبتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ ج وما یعلم تاویلہ