سایہ کے آنے سے دھوپ آپ کی حیات بھی موت کے آنے سے زائل ہوگئی ہے۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ آپ کی حیات جسمانی جو آپ کی موت عرضی کے تلے دب کر افاضہ حس حرکت سے اسی طرح معذور ہوگئی ہے۔ جیسے چراغ روشن کسی ہنڈیا میں بند ہوکر مکان میں افاضۃ نور سے معطل ہوجاتا ہے۔
پس آ پ کی موت جو بحیات جسمانی ہوئی۔ اس قسم سے ہے نہ کہ مثل عوام الناس اس لئے آپ کا حیات النبی ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے۔ اب قادیانیوں کا وہ استدلال ہرطرح سے باطل ہوا کیونکہ اول تو خلا کے معنی موت نہیں جیسا ثابت ہوچکا ہے۔
دوم رسل سے وہ رسل مراد ہیں جن پر قتل اور موت وارد ہوگئی۔ جیسا کہ مابعد آیت اس پر دلالت کرتی ہے اور قرآن اور حدیث متواترہ نے ثابت کردیا کہ حضرت عیسیٰ کی توفی رفع کے ساتھ بحالت حیات ہوئی اور وہ اب تک زندہ ہیں۔ بلکہ آیت سورہ مائدہ نے جو سابق مذکور ہوئی۔ اس نے قطعاً افادہ دیا کہ ابھی حضرت عیسیٰ مرے نہیں اور جو قادیانی معنی خلت کے موت کہتے ہیں۔ تو اس مقام پر جو ہماری اصلی معنی کی تائید ہی کیا کریں گے۔
قولہ تعالیٰ: ’’قد خلت من قبلکم سنن (آل عمران:۱۳۷)‘‘ {بے شک گزر گئے تم سے پہلے دستور۔} اور سنت’’اﷲ التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا (الفتح:۳۰)‘‘ {رسم بڑی اﷲ کی جو چلی آتی ہے۔ پہلے سے اور تو نہ دیکھے گا اﷲ کی رسم بدلتی۔} ’’لایومنون بہ وقد خلت سنۃ الاولین (حجر:۱۳)‘‘ {نہیں ایمان لاتے ساتھ اس کے اور تحقیق گزر گئی ہے۔ } یعنی رسم پہلوں کی۔ اب یہاں قادیانیوں کا سوائے قافیہ تنگ ہونے اور بریذ بریذ پکارنے کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ پس نیم ملاں قادیانیوں کے ایسے چرپوزولائیوں کا بیان کرنا۔ اہل نظر کے سامنے سوائے ندامت اٹھانے کے اور کیا فائدہ ہے۔ مگر وہ تو ایسے چکنے گھڑے ہیں۔
بقول
مردہ چاہے۔ دوزخ میں یا بہشت میں اپنے حلوے مانڈے سے کام۔ اب رہی یہ بات کہ جو مرزا قادیانی کا علماء دین کو یہودی وبدذات وملعون وظالم شیطا ن وغیرہ الزام سے نام لے کر گالیاں دینا اور اپنے وقت کے نو علماء منجملہ ان کے اکثر بوجہ متابعت رسول اﷲ صلعم کی برکت سے مداح فنافی اﷲ اور بقابا اﷲ تک پہنچے ہوئے ہیں۔
جیسے شیخ اﷲ بخش سجادہ نشین حضرت شاہ سلیمان تونسویؒ اور حضرت شیخ غلام نظام الدین بریلوی اور حضرت مولوی احمد حسن صاحب امروہی اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ہیں۔ جن کو بایں الفاظ (جو تہذیب وانسانیت کے درجہ سے بہت پست اور گرے ہوئے ہیں) کہ