بحیات وباموات ومقتول ہیں۔ سب شامل ہیں۔ جو تکمیل پیغام رسانی معینہ کر گئے۔ کہ اکثروں پر موت وارد ہوئی۔
جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہما اور بعض قتل ہوئے۔ جیسے حضرت ذکریا ویحییٰ علیہم الصلوٰت اور بعض پھر زندہ ہوکر واپس ہوئے۔ جیسے حضرت عزیر علیہم السلام اور بعض بحیات جیسے حضرت عیسیٰ وحضرت ادریس وحضرت الیاس وحضرت خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام تو آپ کی نسبت بھی ان امور کو بعید نہ جانو۔ غرض رسل کا یہی کام ہی کہ پیغام پہنچائے اور چلا جائے۔
خواہ وہ پھر واپس آئے یا نہ آئے۔ یہ بااختیار مالک پیغام بھیجنے والے کے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عزیر وحضرت خضروجبریل وحضرت ابراہیم وحضرت موسیٰ وحضرت زکریا ویحیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر واقع ہوا۔
چنانچہ اگلی آیت ’’افائن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم (آل عمران:۴۴)‘‘ سے ظاہر ہے کہ انبیاء بحیات کو مستثنیٰ فرما کر صرف اموات ومقتول کی طرف اشارہ فرمایا۔ کیونکہ خلت کے معنی اگر موت کے ہوتے تو لفظ مات کے جگہ لفظ خلت بس تھا پس ثابت ہوگیا۔ کہ معنی خلا کے موت نہیں۔ جیسا کہ ہم سابق ثابت کرچکے ہیں اورجیسا کہ افان مات او قتل کے مفہوم سے یہ مراد ہے کہ ابھی آپ زندہ ہیں۔ تو قد خلت پر بھی یہ ہی مراد اپنا کام دے گی اور حرف موت وقتل دونوں کا ذکر اس لئے کیا کہ اکثر پیغمبروں کو موت آئی اور بعض قتل بھی کئے گئے۔ تو کہیں کوئی ناقص الفہم انبیاء بحیات مستثنیٰ کو بھی نہ لے اڑے۔جن کی تفصیل خلاصہ مذکور بالا ہوچکی ہے۔ در منثور معصب عمیر نشان محمدی اٹھائے تھے۔
کفار ان پر جھک پڑے اور داہنا ہاتھ آپ کا شہید ہوا۔ آپ نے بائیں ہاتھ میں نشان لے لیا اور یہی آیت پڑھتے جاتے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ جب حضور اقدسﷺ نے انتقال فرمایا اور صحابہ پر یہ حالت طاری ہوئی۔ جیسے جنگ احد میں بوجہ خبر شہرت موت بعض کے حواس بجا نہ رہے تھے۔ تو حضرت ابو بکر صدیق نے وہی قصہ جنگ احد اس وقت یاد دلایا کہ آپ کی وہ حالت نہیں ہے۔ جیسے کہ ہماری تمہاری حیات جسمانی جس سے جسم پر روح کا قبضہ وتصرف تھا۔ موت کے آنے سے اس طرح زائل ہوجاتی ہے۔ جیسے