سفیان کی طرف التجا کرنی چاہی۔ مگر اصحاب جان نثار مہاجرین وانصار کہتے تھے کہ اگر رسولﷺ شہید ہوئے تو تم بھی اسی پر لڑو جس پر وہ لڑے۔
چنانچہ انس بن نضر نے کہا کہ اے لوگو۔ اگر محمدﷺ قتل ہوئے۔ تو محمدﷺ کا رب قتل نہیں ہوا۔ پس قتال کرو جس پر قتال کیا۔ رسول اﷲﷺ نے ۔ اے اﷲ میں تیرے حضور میں عذر کرتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔ پھر تلوار میان سے لی اور اس قدر لڑے کہ شہید ہوگئے۔ انصار مرتے جاتے اور وصیت کرتے اے انصار وہ عہد یاد کرو جو تم نے عقبہ ثانیہ میں کیا تھا اور جان ومال حضور پر فدا کرو۔ حضرت علیؓ کا یہ حال تھا کہ برابر لڑتے اور حضور کو میدان میں ڈھونڈتے۔
جب وہ جمال جہاں آرا نظر نہ آیا۔ آنکھوں میں اندھیرا ہوگیا۔ فرمانے لگے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کہ حضور میدان سے ہٹ جائیں۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے ہماری شامت اعمال سے اس حبیب پاک کو اپنے آسمان پر اٹھا لیا۔ پھر تلوار کھینچ کر ہر طرف دشمنوں کو قتل کرنے لگے۔ دفعتاً ایک جانب سے وہ چہرہ نورانی نظر آیا۔
پھر پروانے کی طرح دوڑ کر قریب آگئے۔ الغرض اسی حالت میں حق سبحانہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا: ’’وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسلط افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقیبیہ فلن یضر اﷲ شیئاً وسیجزے اﷲ الشاکرین (آل عمران:۴۴)‘‘ {اور نہیں محمدﷺ مگر پیغمبر بے شک گزر گئے۔ پہلے ان سے بہت پیغمبر آئے۔ پس کیا آپ مر جائیں۔ یا مارے مر جائیں۔ پھر جائو گے۔ تم اپنی ایڑیوں پر اور جو پھرے ایڑیوں پر اپنی پسر نہ بگاڑے گا۔
اﷲ کا کچھ اور اب عوض دے گا اﷲ شکر کرنے والوں کو۔} یعنی محمد رسول اﷲ اﷲ کے پیغمبر ہیں۔ آپ کے پہلے بھی بہت پیغمبر گزر چکے۔ تو جس طرح وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان کا جانا بھی ضرور سمجھو۔ اگر آپ انتقال فرمائیں۔ یا شہید ہوں۔ تو کیا تم لوگ دین چھوڑ کر پرانی حالت پر ہوجائو گے۔ یہ ارشاد کہ محمدﷺ رسول ہی ہیں۔ اس لئے ہوا کہ قاصد ضرورت تمام کرکے واپس جاتا ہے۔
حضرت جبرائیل بھی پیغام لاتے اور جاتے اور انبیاء بھی پیغام لائے اور گئے آپ بھی اﷲ کے حضور میں جانے والے ہیں۔ پھر تعجب اور تردد کیوں ہے۔ اس مجمل آیہ میں پیغمبران جو