میں ہیں آسمان پر زندہ ہیں۔ ایک قوم نے ان کو بھی خدا کہا۔ پس سب کو اموات کیوں کہا۔
الجواب… خواہ بااعتبار اکثر کے اموات فرمایا کہ اکثر یہ معبود غیر روح اور جمادہیں خواہ اس لئے کہ یہ سب ایک دن مردہ ہوجائیں گے۔ خواہ یہ کہ قبل از وجود مردہ یعنی معدوم تھے اور پھر مردہ یعنی معدوم ہوجائیں گے۔ پس قادیانیوں کا اس آیہ میں حضرت عیسیٰ کی نسبت بھی ایسا خیال فاسد کرنا باطل ہوگیا۔ موت ثابت نہ ہوئی۔
قولہ: حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آنحضرت کی وفات پر آیت ’’وما محمد الارسول قد خلت من قبل الرسل (آل عمران:۴۴)‘‘ پڑھی جتنے صحابہ موجود تھے۔ آپ نے آیت سے یہ استدلال کیا کہ رسول اﷲﷺ سے پہلے سب کے سب رسول گزر گئے۔ یعنی وفات پاگئے۔ اس جگہ گزر گئے سے زندہ ومردہ دونوں طرح سے گز ر گئے۔
مراد ہوتی تو تمام صحابہ کا اس استدلال کو قبول کرنا اور یہ اعتراض نہ کرنا۔ اس سے حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس مستثنیٰ ہیں اور آپ کا یہ کہنا کہ زندہ اور مردہ دونوں طرح سے گزر گئے۔ جائے تعجب ہے…الخ۔
قول
اس آیت سے صرف ماقبل انبیاء جو ہوئے ان کا ذکر جیسا اور انبیاء سے فرمایا تھا۔ ویسا ہی آپ سے بھی فرمایا گو وہ کسی حالت میں ہوں گزشتوں کے اختتام پیغام رسانے کا ذکر ہے۔ ہاں ہاں آیہ مابعد کے استدلال کی البتہ ضرورت تھی۔ جو بشمول اس کے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے پڑھی کہا کہ آپ لوگوں کو شان نزول اس آیہ کی معلوم نہیں ہے۔ اس آیہ کا نزول بوقت جنگ احد ہوا تھا۔ جبکہ لڑائی بگڑی اور فوج درہم وبرہم ہوئی۔
اور شیطان نے یہ اڑادیا۔ ان محمد قد قتل۔ محمدﷺ شہید ہوگئے۔ اس خبر وحشت کے اثر سے رہے سہے ہوش وحواس جاتے رہے۔ غرض کچھ لوگ کہیں گئے کچھ متفرق طور پر لڑتے رہے۔ کچھ میدان میں جمے رہے۔ کہ حضورﷺ کی تلاش کرتے رہے۔ مگر حضورﷺ نے اپنے مقام سے قدم نہ سرکایا کفار متواتر حملے کرتے اور آپ کے جان نثار ان کے سامنے سے بھاگ جاتے۔
وہ جان نثار جو اس شمع رسالت کے پروانہ ہورہے تھے۔ چودہ سے تیس تک شمار میں آئے ہیں۔ غرض یہ امر مشہور ہوگیا تھا کہ حضور شہید ہوئے۔ بعض منافق کہتے اگر آپ نبی ہوتے تو قتل نہ کئے جاتے اور بعض کمزو روں نے کہا کہ آئو پہلے دین کی طرف پھر جائیں۔ کسی نے ابو