۔ زندہ بھی تو نہیں اور نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔}
ناظرین جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کئی کروڑ عیسائی ربنا المسیح ربنا المسیح پکارتے ہیں …الخ ۔
اقول
آپ کی سمجھوں پر کہاں تک آفریں کی جائے۔ اس میں بھی بوجہ تیرہ درونی کے وہی کچھ اندھا ہے۔ جیسے کہ آیات گزشتہ ہیں۔ گل کھلائے ہیں۔ ہم آیت ’’والذین یدعون من دون اﷲ …الخ‘‘ کے کب منکر ہیں۔ بے شک حضرت عیسیٰ من دون اﷲ ہیں اور ان کو نصاریٰ ومشرکین وغیرہ ربنا المسیح بھی کہتے ہیں اور ہم کب ان کی موت سے انکار کرتے ہیں۔ تمام اہل سنت والجماعت نبی علیہ السلام صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے لیکر تا آن وقت بموجب قرآن وحدیث کے اس بات کے معتقدہیں کہ حضرت عیسیٰ نزول فرمائیں گے اور مطابق حدیث عبداﷲ بن عمر کے پینتالیس برس دنیا میں رہ کر وفات پائیں گے۔ جیسے کہ ہم مذکورہ بالا سے ثابت کرآئے ہیں اور سنئے۔ ملا صاحب نے اس آیت میں بھی بوجہ قلت فہم غور نہیں کیا۔ قبل آیہ مذکور اﷲ پاک فرماتا ہے۔
’’افمن یخلق کمن لا یخلق افلا یتذکرون (نحل:۱۷)‘‘ {کیا پس جو پیدا کرتا ہے۔ مثل اس کی ہے۔ جو نہیں پیدا کرسکتا۔ پس نہیں غور کرتے۔}
فائدہ: کیا وہ ذات پاک جو زمین وآسمان موجودات پیدا کرے۔ وہ اس کی مثل ہوگا جو کچھ پیدا نہ کرسکے۔ کیا تم غور نہیں کرتے…الخ۔ بعد اس کے یہ فرمایا ’’والذین یدعون من دون اﷲ…الخ (نحل:۲۰)‘‘ {اور جسے پکارتے ہیں سوائے اﷲ کے وہ نہیں پیدا کرسکتے کچھ بھی اور وہ خود پیدا کئے گئے ہیں۔ مردے ہیں۔ غیر زندہ اور کچھ نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔} یعنی یہ مشرک خدا کے سوا جن کی پرستش کرتے ہیںوہ کچھ پیدا کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ بلکہ خود مخلوق ہیں۔ بے روح ہیں۔ زندہ نہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ کب زندہ کئے جائیں گے۔
(پس جس کی یہ حقیقت ہے وہ کیوں کر معبود بننے کے قابل ہوسکتا ہے؟)
چونکہ کفار کے معبود مختلف اقسام کے تھے۔ بعض جماد جیسے بت وغیرہ بعض ذوی العقول جیسے فرشتے جن وانس بعض حیوان جیسے ہندو وغیرہ بعض جانوروں ودریا درخت وچاند وسورج وغیرہ کو پوجتے ہیں اور بعض انسانوں نے خود اپنے آپ کو خدا کہلایا جیسے فرعون شداد غروروغیرہ جو بحیات اس دنیا میں موجود تھے اور لاکھوں آدمیوں نے خدا کہا اور حضرت عیسیٰ اس دنیا