اور اسی وجہ سے دنیا کے کھانے سے روکی گئیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا محض باطل ہے کہ چونکہ حضرت مریم فوت ہوگئی ہیں۔ اس لئے حضرت عیسیٰ بھی فوت ہوگئے ہیں۔ لیکن دونوں طعام کھایا کرتے تھے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے مولوی عبدالکریم کہیں کہ الٰہی بخش وعبدالرحیم وغلام مرتضیٰ وغلام احمد طعام کھاتے تھے۔ تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا ہے۔ کہ الٰہی بخش وغلام مرتضیٰ جو بوجہ فوت ہونے کے کھانے سے رک گئے اور ان کا فرزند عبدالرحیم وغلام احمدجواب زندہ درگور ہیں۔
ان کا مر جانا یا طعام کھانے سے روکا جانا ثابت یا بوجہ طعام نہ کھانے کے ان کا مرجانا بھی ثابت ہو۔ کیونکہ یہ ظاہر وثابت ہے کہ اکثر اشخاص بغیر طعام کھانے کے سینکڑوں برس سے زندہ ہیں اور زندہ رہے۔ جیسے اصحاب کہف حضرت خضر اوریاجوج وماجوج جو زندہ سزایاب اسی دنیا میں ہیں اور اکثر غیر قوم ہنودوغیرہ میں لوگ ہوئے اور موجود ہیں۔ کہ بعضوں نے کھانا ترک کرکے تمام عمر طعام نہیں کھایا۔
بعض سالہا نہیں کھاتے ہیں اور بعض بیمار تو مہینوں طعام نہیں کھاتے اور زندہ رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں خود مشکوٰۃ میں اسماء بنت زید کی حدیث میں ہے کہ خروج دجال کے وقت تین سال تک جو بارش نہ ہونے سے طعام کا ملنا موقوف ہوئے گا۔ اس کی نسبت آ نحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس وقت ایمان والوں کو ملائکہ آسمان کی طرح تسبیح وتقدیس بجائے طعام کفایت کرے گی اور اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ مرزا قادیانی کا زعم فاسد ہے۔ کہ ایسے دو شخصوں کے لئے ایک غالب وصف حیات کے ساتھ متصف کرنا جن میں سے ایک کا مرجانا ثابت ہو۔ دوسرے کی موت کا مستلزم ہے تو ہم معاوضہ کے طور پر یہ آیت کریمہ پیش کریں گے:
’’لقد کفر الذین قالو ان اﷲ ہو المسیح ابن مریم قل فمن یملک من اﷲ شیئاً ان ارادن یہلک المسیح ابن مریم وامہ ومن فی الارض جمیعا (مائدہ:۷۲)‘‘ {بے شک کافر ہوئے وہ لوگ جنہوں نے کہا بے شک وہی مسیح ابن مریم ہے۔ کہہ دیجئے پھر کون اختیار رکھتا ہے۔ اﷲ پر کچھ بھی اگر چاہے کہ ہلاک کرے۔ مسیح بن مریم اور ماں کو اس کی اور جو کچھ زمین پر ہے سب کا سب۔} یعنی جبکہ نصاریٰ نے یہ کہا کہ مسیح ابن مریم بھی خدا ہے۔ اس وقت ارشاد ہوا کہ اے محمدﷺ ان سے کہہ دے کہ اگر مسیح ابن مریم کو مارنے کا ارادہ کرے۔ ساتھ اس کی ماں اور کل زمیں والوں کے تو کون روک سکتا ہے۔