اقول
یہ تو ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیںکہ یہ جو کچھ ملا جی آپ نے الاپا ہے۔ درپردہ انہیں بڑی گرو کی کھڑائوں کا صدقہ ہے۔ چنانچہ ازالہ ص۱۰۳ میں اس کو بڑی دھوم دھام سے بیان کیا ہے۔
اجی حضرت یہ تو سب کے نزدیک مسلم ہے کہ لوازمات انسانی انسان کے واسطے جب ہی تک رہا کرتے ہیں کہ جب تک وہ دنیا میں رہے۔ پس حضرت مریم روحانی طور پر ذائقۃ الموت کے بعد اور حضرت عیسیٰ جسمانی طور پر بلا ذائقہ الموت آسمان پر اٹھالئے گئے۔ تو ان کے واسطے جو لوازمات دنیوی تھے۔ وہ بھی جاتے رہے۔ منجملہ۔ ان کے ایک اکل وشرب تھا۔ پس اس کی بھی نفی ثابت ہونی چاہئے۔
پس جیسا کہ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی غذا قبل از نزول الی الارض تسبیح وتقدیس باری تعالیٰ مثل ملائکہ کی اور ان کے دنیامیں آنے کے بعد انسانی لوازمات لاحق ہوئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عذا التسبیح وتقدیس کے کیوں منکر ہو۔ عاقل کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ بیوقوف کے سامنے دفتر ہی کھول کر یہ رکھا جائے تو کیا فائدہ ایسے دھوکے کسی آپ جیسے عقل کے دشمن کو دینا۔ علاوہ ازیں حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ کوئی شخص حضرت موصوف کا اس قدر عرصہ تک شکم ماہی میں بلا اکل وشرب زندہ رہنا خیال کرسکتا ہے۔
ہرگز نہیںمگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بہ برکت آیت کریم۔ ’’لاالٰہ الا انت سبحنک انی کنت من الظالمین (انبیائ:۸۷)‘‘ شکم ماہی سے صحیح سلامت زندہ برآمد فرمایا۔ جو حسب حال قادیانیوں کے خلاف عادت اﷲ اور طعام وغیرہ سے روکا جانا ضروری امر ہے۔ جس سے انکار قانون قرآن ثابت ہے۔
پس ایسے منکروں سے خدا بچائے اور سنئے! خلت کے معنی لغت عرب میں موت کے ہرگز نہیں آئے۔ جلالین میں ہی قدخلت سلفت یعنی گزر گئے۔ غرض اصل معنی اس کے گزرنے اور ہونے وغیرہ کے ہیں اور آیت کا سیاق اس معنی پر شاہد ہے کہ اس آیت کے ارشاد سے اﷲ پاک کا صرف یہی منشاء ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی دوسرے پیغمبروں کی طرح ایک پیغمبر ہے اور ماں ان کی دوسری عورتوں کی طرح پیغمبر کی تصدیق کرنے والی اور دونوں کھانے پینے کے لئے اور انسانوں کی طرح محتاج تھے۔ پس ایسے شخص کیوں کر الوہیت واﷲ ہونے کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ ہاں ان کی والدہ البتہ فوت ہوگئیں۔