ہے۔ ملک الموت نے کہا وہ کیا۔ فرمایا حضرت ادریس نے کہ تم مجھ کو آسمان پر لے چلو۔ تاکہ میں آسمان اور جنت ودوزخ کو دیکھوں۔ جب اﷲ نے ملک الموت کو حضرت ادریس کے اٹھانے کی اجازت دے دی تو ملک الموت ان کو اٹھا لے گئے۔ جب ادریس قریب دوزخ کے ہوئے تو فرمایا کہ آپ سے مجھ کو ایک حاجت ہے۔ ملک الموت نے کہا کیا اور چاہتے ہو؟ حضرت ادریس نے ملک الموت سے کہا کہ آپ آسمان کے مالک سے فرمائیے تاکہ وہ آسمان کے دروازہ کو کھولے۔ بموجب ان کی کہنے کے دروازہ کھلوائے۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا جیسا کہ تم نے مجھے دکھائی دوزخ، اسی طرح جنت بھی دکھا دو تو ملک الموت ان کو جنت کی طرف لے گیا اور دروازہ جنت کے کھلوائے۔ جب ملک الموت نے ان کو جنت میں داخل کردیا تو ملک الموت نے بعد ان کی سیر کرنے کے کہا کہ آپ تشریف لے چلئے اپنی جگہ پر۔ پس حضرت ادریس علیہ السلام جنت میں کسی درخت سے لٹک گئے اور فرمایا میں یہاں سے نہ جائوں گا۔ اسی اثناء میں بھیجا اﷲ پاک نے ایک فرشتہ ان کے پاس حکم سنا کر اس فرشتہ نے حضرت ادریس سے فرمایا کہ یہاں سے کیوں نہیں جاتے ہو؟ جواب دیا کہ اﷲ نے فرمایا ہے کہ ہر جان ذائقۃ الموت چکھنے والی ہے اور بموجب اس کے میں چکھ چکا ہوں اور فرمایا ہے اﷲ نے کہ نہیں ہے کوئی تم سے مگر کہ پل صراط پر اترنے والا ہوگا اور بموجب اس کے میں اتر آیا ہوں اور فرمایا کہ جو جنت میں داخل ہوگیا وہ نہ نکلے گا۔ پس بموجب اس کے میں یہاں سے نہیں جاتا۔ اﷲ پاک نے فرمایا ملک الموت سے بذریعہ وحی کے ادریس جنت میں میرے حکم سے داخل ہوا ہے اور میرے حکم سے نہ نکلے گا۔ پس وہ زندہ ہیں جنت میں۔}
قولہ: ’’ما المسیح ابن مریم الارسول ج قد خلت من قبلہ الرسل وامہ صدیقۃ کانا یا کلٰن الطعام (مائدہ:۷۵)‘‘ {نہیں ہے ابن مریم مگر ایک رسول تحقیق ان سے پہلے سب رسول گزر گئے اور ان کی والدہ صدیقہ اور وہ خود دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔}
اب ’’وما جعلنا ہم جسد الایاکلون الطعام وما کانوا خالدین (انبیائ:۸)‘‘ کے مفہوم کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کھانا جسم کے واسطے لازمی اور غیر منفک ہے۔ پس اب جو عیسیٰ کی والدہ کھانا نہیں کھاتیں تو سوائے اس جسمانی موت کے کیا امر مانع ہے۔ اگر موت ہی مانع ہے تو وہی موت حضرت عیسیٰ کو بھی مانع ہی کیونکہ لکھا ہے۔ کہ وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔ جس سے ضمناً پایا جاتا ہے کہ اب نہیں کھاتے۔