مقام ہے۔ کہ آپ مولوی عبدالکریم صاحب کو منکر کل نفسٍ ذائقۃ الموت کا ٹھہراتے ہیں۔
ہاں صاحب بمصداق ۔ کل انائٍ یتر شح بما فیہ یعنی ہر بررتن اس چیز کو پھینکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔ چونکہ آپ اور آپ کے گرد گھنٹال آیت قرآنی واحادیث نبوی کے گودرپردہ بطرز منافقانہ کیا۔ بلکہ صرحتہً قطعی منکر ہیں۔ جو سابق ثابت ہوچکا ہے۔ چنانچہ یہ ضرب المثل صادق ہے۔
کل امرئٍ یقیس علیٰ نفسہ یعنی ہر شخص دوسروں کو اپنی حالت پر خیال کرلیتا ہے۔ مگر اب تو یہ وہ مثل ہوئی۔ ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا اور آپ کے اس سوال (یعنی حضرت ادریس زندہ آسمان پر اٹھائے گئے یا کیسے اور لوٹ کرآئیں گے یا نہیں۔ آپ کی لیاقت علمی کی خوب قلعی کھول دی۔
بس آپ میں اتنا ہی دم درود تھا۔ بلّا جی مشہور مولوی نام محمد فاضل۔ گر ہمیں مکتب وہمیں ملا است کار طفلاں تمام خواہد شد۔ تفسیر کی آپ کے کانوں نے آوراز تک بھی نہیں سنی واہ رے مرزا کے باطل مذہب پر دھبہ لگانے والو۔ یہ اور طرہ ہے کہ سمندر ناز پر ایک اورتازیانہ ہو!
آیت ورفعناہ مکاناً علیاکے تحت میں تفسیر جلالین میں مذکور ہے۔ ’’ہو حی فی السماء الرابعۃ او السادسۃ والسابعۃ او فی الجنۃ ادخلہا بعد ما یدیق الموت واحی ولم یخرج منہا‘‘ حضرت ادریس زندہ ہیں چوتھے آسمان پر یا چھٹے۔ یا ساتویں پر یا جنت میں اﷲ پاک نے ان کو موت کا ذائقہ چکھانے کے بعد جنت میں داخل کردیا اور نہ زندہ ہیںجنت میں اور جنت سے نہ نکلیں گے۔
باقی مفصل یہ بات کہ کہاں پر ذائقہ موت کا چکھائے گئے۔ اس میں صاحب کل نے دو قول طویل تحریر کئے ہیں۔ جن میں سے ایک کو بوجہ اختصار کے لکھتا ہوں۔ ’’وہو ہذا قال وہب کان یرفع ادریس کل یوم من العبادۃ مثل ما یرفع بجمیع اہل الارض فی ذمانہ فعجب منہ الملائکۃ واشتیاق الیہ ملک الموت فاستاذن اﷲ فی ذیارتہ فاذن لہ فاتاہ فی سورۃ بنی ادم وکان ادریس یصوم الدہر فلما کان وقت افطارہ دعاہ الی طعامہ فابی ان یاکل معہ ففعل ذالک ثلاث لیالٍ فانکرہ ادریس وقال لہ فی الثالثہ انی ارید ان اعلم من انت قال انا ملک الموت استاذنت ربی ان اصبحک فقال لی الیک حاجتہ قال ماہی قال تقبض روحی فاوحی اﷲ الیہ ان اقبض روحہ فقبض وردہا اﷲ الیہ فی ساعۃ فقال لہ