پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چوتھی قبر ہوگی۔ امام ترمذی کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ نزول فرمائیں گے:’’اخرج الترمذی وحسنہ من محمد بن یوسف بن عبداﷲ بن سلام عن اب عن جدٍ قال مکتوب فی التوراۃ صفتہ محمد وعیسیٰ بن مریم یدفن معہ قال ابو معدود وقدبقی فی البیت موضع قبر (درمنثور)‘‘ {نکالا اس روایت کو ترمذی نے اور تحسین بیان کی۔ اس کی محمد ابن یوسف ابن عبداﷲ بن سلام سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے اپنے دادا سے کہا انہوں سے لکھی ہوئی ہے۔ صفت محمدﷺ کی توراۃ میں اور لکھا ہوا ہے کہ دفن کئے جائیں گے عیسیٰ نبیﷺ کے ساتھ۔}
ابو معدود نے کہا کہ اب تک روضہ اطہر میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے اور شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی فوز الکبیر میں تحریر فرماتے ہیں۔ کہ حضرت عیسیٰ نزول فرماویں گے۔
قولہ: حضرت ادریس کازندہ آسمان پر جانا اور وہیں رہنا منہا خلقنکم وفیہا نعیدکم کے صریح خلاف ہے۔حی لایموت صفت باری میں حضرت ادریس کے شراکت کے آپ قائل ہورہے ہیں۔ (اور کل نفسٍ ذائقۃ الموت) کے منکر
اقول
اس کی بابت ہم سابق تحریر کرچکے ہیں۔ مگر مزید اطمینان کے لئے عرض کرتے ہیں۔ اجی حضرت قرآن کے معنی ومطالب سمجھنے کے واسطے طبیعت مستقیم درکار ہے۔ اگر ظاہر الفاظ کا خیال کرلیا جائے۔ تو اہل ہوا خوب گلچھرے اڑائیں اور طبیعت کے بندے کودیں اور بغلیں بجائیں۔
اس آیہ کا یہ مطلب نہیں ہے جو آپ سمجھے بیٹھے ہیں۔ اگر یہی معنی سمجھے جائیں تو حضرت ادریس ہی کیا جائے طعن رہ گئے تھے۔ جتنے ہنود کے مردے ہیں۔ بعض جلاتے ہیں اور بعض گنگا میں بہاتے ہیں۔ وفیہا نعیدکم کے موافق تمہارے زعم باطل کے صریح خلاف ہے۔ جیسا ہم مفصل سابق ثابت کرچکے ہیں۔
ہاں مطابق آیت کے اکثر یہی حکم ہے۔ جیسا کہ یہ ثم اماتہ فاقبرہ سے ظاہر ہے۔ اس وجہ سے کہ جہاد وغیرہ میں بسا اوقات قبر میں دفن نہیں کئے جاتے۔ اگر چھوٹے چھوٹے بچوں کے بہکانے والے دقائق کلام الٰہی سمجھنے لگیں تو قرآن کیا ہوا۔ فارسی کورس ہی ہوگئے۔ سنبھلو میاں جی سنبھلو کچھ دوبارہ دیکر پڑھو اور اس نصیحت پر عمل کرو کہ قرآن کے دقائق۔ وحقائق وہی لوگ سمجھے ہیں جن کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں اور نیز قاعدہ کلیہ بھی بتا چکے ہیں۔ بڑے افسوس اور حیرت کا