جس قدر آیات دیگر دربار تائید اثبات درجات درج اشتہار کی ہیں۔ ان سب میں لفظ رافعک کے ماقبل ومابعد قرینہ والفاظ درجات موجود تو پھر کس برتے پر تتا پانی اور کس بھروسے اور ڈھٹائی پر یہ مثالیں تحریر اشتہار کی گئیں۔
بقول
چہ دلاور ست دزدے کہ بہ کف چراغ وارد۔ ملا جی اگر کسی مکتب میں کچھ دے کر کسی عالم وفاضل سے پڑھا ہوتا تو بات بات پر ٹھوکر کھا کر نہ گرتے۔ ان خیالات فاسد کے مرتکب نہ ہوتے۔ کسی خیراتی اسکول میں پڑھا ہوگا۔ کیونکہ میلان طبع واحوال ظاہری یہ ہی ثابت کرتا ہے کہ ایمان جائے تو جائے پیزار سے مگر فخردنیا وطبع ہاتھ سے نہ جائے۔ لو اب ہم ایک اور چوتھے طریقے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بحیات آسمان پر ہونا اور اﷲ پاک سے سوال وجواب کا پیش آنا ثابت کرتے ہیں۔ اﷲ پاک فرماتا ہے:
’’اذ قال اﷲ یٰعیسیٰ ابن مریم ئَ انت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اﷲط قال سبحٰنک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحقط ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم مافی نفسک انک انت علاّم الغیوب (مائدہ:۱۱۶)‘‘ {اور جب کہا اﷲ نے عیسیٰ بیٹے مریم کو کیا تم نے کہا آدمیوں کو بنا لو مجھے اور ماں کو میرے معبود سوائے اﷲ کے کہا پاک ہے تو اور نہیں مجھے یہ قوت کہ کہوں میں وہ کہ نہیں میرے لئے حق اگر میں نے کہا تھا اسے پس بیشک جانتا ہوگاتو اسے تو جانتا ہے۔ جو میرے جی میں ہے اور نہیں جانتا میں جو تیرے نزدیک ہے۔ بیشک تو بڑا جاننے والا غیبوں کا۔ }
یہ آیت صاف دلالت کرتی ہے کہ بعد رفع جسمانی سوال وجواب ہوئے۔ بدون جسم کسی انبیاء سے اس قسم کے سوال وجواب نہیں ہوئے۔ بشرطیکہ وجود بروز قیامت ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع معہ جسم بلا ذائقۃ الموت ہوا کہ نوبت سوال کی آئی اور اس کی اگلی آیت میں بقیہ جواب حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ ہے: ’’ما قلت لہم الاما امر تنی بہ ان اعبدو اﷲ ربی وربکم وکنت علیہم شہیداً ما دمت فیہم ج فلما توفیتتی کنت انت الرقیب علیہم ط وانت علیٰ کل شی ئٍ شہید (مائدۃ:۱۱۷)‘‘ {میں نے نہیں کہا ان سے مگر جو حکم کیا تو نے مجھے اس کا یہ کہ پرستش کرو اﷲ کی کہ رب میرا ہے اور رب تمہارا اور میں تھا ان پر شاہد جب تک تھا میں ان میں پھر جب وفات دی تو نے مجھے تھا تو محافظ ان پر اور تو ہر شے پر گواہ ہے۔ }