پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی یہ اتباع ونصرت وعہد کی پیشن گوئی پوری نہ ہو تو گویا اﷲ پاک کا یہ فرمانا۔ (معاذ اﷲ) لغو ٹھہر جائے۔ یہ انہیں کو سرچشمہ منکرین کا کام ہے۔ جو کلام الٰہی سے بے بہرہ ہیں۔اور ان آیات کے منکر ہیں۔ اے شائقین اب تو یقین کلی ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مجسم آسمان پر زندہ ہی اٹھا لے گئے۔ باقی یہ بات کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے یا نہیں۔ حضرت عیسیٰ کے نزول الی الارض پر آیات قرآن واحادیث نبوی شاہد ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر آیات قرآنی سے ثابت کرآئے ہیں۔
نظر سے گزرا ہوگا کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا یومنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ {نہیں رہے گا کوئی اہل کتاب سے مگر کہ ایمان لائے گا۔ حضرت عیسیٰ پر ان کی وفات سے پہلے۔} اور تفاسیر سے یہ بات ثابت ہے اور نیز جیسا جمل میں مذکور ہے۔ بہ کثرت یہود حضرت عیسیٰ پر ایمان نہیں لائے اور انہوں نے اپنے گمان میں ان کو قتل کیا۔ پس بوقت نزول ہی اس آیت کا منشاء پورا ہوگا اور احادیث میں وارد ہے۔
’’عن ابی ہریرہ قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنٰزیر ویضع الجزیۃ ویقبض المال حتی لا یقبضہ احد حتی یکون السجدۃ الواحدہ خیرا من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابو ہریرہ فاقرؤان شئتم وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہٖ قبل موتہٖ…الخ‘‘
{ابی ہریرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا فرمایا نبی ﷺ نے کہ قسم ہے۔ اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ البتہ قریب یہ بات اور نزول فرمائے گا تمہارے اندر عیسیٰ ابن مریم حاکم عادل ہوکر پس توڑے گا صلیب کو اور مارے گا خنزیر کو اور لٹاوے گا مالک اتنا کہ کوئی شخص مال کو نہ لے گا۔ یہاں تک کہ اس وقت ایک سجدہ بھی دنیا ومافیہا سے افضل ہوگا۔ پھر فرمانے لگے ابو ہریرہ کہ اگر تمہارا دل چاہے تو پڑھو قرآن کریم کی آیت کہ نہیں ہے کوئی اہل کتاب سے مگر ایمان لاوے گا حضرت عیسیٰ پر ان کی وفات سے پہلے اور یہ ظاہر ہے۔ }
ناظرین کو واضح ہوکہ یہ حدیث بخاری شریف کی ہے۔ جو کہ ازروئے مرتبہ کے بعد قرآن شریف کے ہے۔ جس کی احادیث مستند اور صحیح ہیں۔ با جماع اہل امت سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں گے اور اس حدیث میں قابل غور یہ