ترتیب سے ۱۳۱۲ھ میں ہوا۔ اس اعتبار سے مرزاقادیانی نے مذکور ۱۷کی تعداد میں ایک کا اضافہ کر دیا ہے۔ ’’لا حول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ مدعی مہدویت اور سفید جھوٹ ’’نعوذ باﷲ من النفس الا مارۃ بالسؤ والضلالۃ بعد الہدیٰ‘‘
جملہ اہل اسلام کے لئے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ:
پہلا کسوفین
۱۲۶۷ھ میں مطابق ۱۸۵۱ء ہندوستان میں ہوا۔ اس کے دیکھنے والے اس وقت تک موجود ہوں گے۔ ان گہنوں کی تاریخ ۱۳و۲۸؍رمضان ہے۔ اس وقت مرزاقادیانی کی عمر گیارہ یا بارہ برس کی ہوگی۔ کیونکہ انہوں نے (کتاب البریہ ص۱۴۶، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷ حاشیہ)میں اپنی پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء بتائی ہے۔ اس حساب سے یہ کسوفین رمضان ان کے دعوے کرنے سے بہت پہلے ہیں۔
دوسرا کسوفین
۱۳۱۱ھ کے ماہ رمضان میں ہوا۔ جو ۱۸۹۴ء کے مطابق ہے۔ یہ امریکہ میں ہوا۔ جس وقت مسٹر ڈوئی مدعی مسیحیت وہاں موجود تھا۔ ہندوستان میں دیکھا ہی نہیں گیا۔ جنتریوں میں اس کسوفین کی تاریخ ۱۲ ہے، ۱۳ نہیں ہے۔ مرزاقادیانی ہندوستان میں ہوکر اس کی تاریخ ۱۳بتاتے ہیں اور (حقیقت الوحی ص۱۹۷، خزائن ج۲۲ ص۲۰۴) میں اس کسوفین کو بھی اپنا نشان بتایا ہے اور محض حوالہ دے دیا ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مہدی کے وقت میں ایسے گہن دو مرتبہ ہوں گے۔ حالانکہ کسی حدیث میں یہ مضمون وارد نہیں ہوا ہے اور مزہ یہ ہے کہ مدعی ہندوستان ہے اورنشان امریکہ میں ظاہر ہورہا ہے۔ جہاں کے باشندوں کو اس کے وجود کا علم تک نہیں ہے۔
تیسرا کسوفین
۱۳۱۲ھ کے ماہ رمضان کی ۱۳و۱۸ مطابق ۲۶؍مارچ۱۸۹۵ء کو ہوا۔ یہی کسوفین ہے۔ جسے مرزاقادیانی نے اپنے لئے آسمانی نشان مشہور کیا اور دارقطنی کی روایت کا مصداق قرار دیا۔ حالانکہ چالیس برس کے گہنوں میں یہ تیسرا کسوفین ہے۔ جو ماہ رمضان میں قواعد مقررہ نجوم کے مطابق واقع ہوا۔ پھر یہ نشان اور آیت کیونکر قرار پاسکتا ہے؟ جب کہ حدیث میں یہ ارشاد موجود ہے کہ ’’لم تکونا منذ خلق اﷲ السمٰوٰت والارض‘‘ یہ جملہ حدیث کے شروع میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ ’’لم تکونا‘‘ کی ضمیر تثنیہ لازماً سورج گہن اور چاند گہن دونوں کی طرف