شاء اﷲ تعالیٰ‘‘ {یعنی معراج آنحضرتﷺ کو بیداری کی حالت میں ہوئی۔ اسی جسم کے ساتھ آسمانوں کی طرف۔ پھر وہاں سے جہاں خدا نے چاہا ہو۔} چنانچہ مسجد الحرام سے بیت المقدس تک جانا۔ آیت: ’’سبحان الذی اسریٰ (بنی اسرائیل:۱)‘‘ سے اور سروہ نجم سے بھی نہایت نزدیک درجہ تک پہنچ جانا معلوم ہوتا ہے اور معراج حالت بیداری میں جسم کے ساتھ واقع ہونا مشہور حدیثوں میں مذکور ہے اور تفصیل اس سیرو سفر کی بھی حدیث سے بخوبی ہوتی ہے اور قرون ثلٰثہ میں سے کسی کو اس بات میں شک وتردد نہیں ہوا۔
لیکن جب فلسفی علوم شائع ہوتے گئے اور اوہام ووساوس شیطانی بڑھتے گئے۔ ایسے مسائل میں بھی خدشے پیدا ہوئے اور اس وجہ سے علماء دین کو بھی ایسے مسائل میں اہتمام کی ضرورت پیش آئی۔
چنانچہ یہاں مسئلہ اسی واسطے عقائد کے ساتھ مذکور ہوتا ہے اور مسئلہ خاص میں دو ہی امر تعجب خیز معلوم ہوتے ہیں۔ ایک جسم کے ساتھ ایسی مسافت ایک آن میں قطع کرنا۔ دوسرے آسمان کا پھٹ کر مل جانا اور در حقیقت دونوں ہی محال ہیں۔ اس واسطے کہ بالفرض اگر طویل مسافت سرعت کے ساتھ طے کرنا محال ہوتا تو کرہ زمین خود آسمان (جس کی ثقل وگرانی کو انسان کی ثقل وگرانی کے ساتھ نسبت نہیں۔)
شبانہ روز دنیا کی مسافت کیونکر قطع کرنے اور آسمان کا پھٹنا اسی صورت میں محال ہوتا۔ جب فلسفیوں کے زعم کے موافق اجسام کی اصل اتصال ٹھیرتی حالانکہ ایسا نہیں۔ اس واسطے کہ بموجب تحقیق متکلمین کے اصل اجسام کی منفصل معلوم ہوتی ہے اور اس صورت میں افلاک کا بھی پھٹ کر مل جانا ناممکن نہیںمعلوم ہوتا۔
ہاں! اگر یہ کہئے گو اگ ایسے امور ناممکن نہ سہی۔ لیکن خلاف عادت ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جا بجا یہ معلوم ہو چکا کہ قادر مطلق کبھی کبھی اپنے اظہار قدرت کے واسطے خلاف عادت وامور بھی ظہور میں لاتا ہے اور ایسے وقائع بھی انہیں میں سے ہیں اور علاوہ اس کے حکماء بھی عقول وارواح کی قوت واستعداد تسلیم کرتے ہیں اور ایسے وقائع کا خواب میں واقع ہونا بعید نہیں جانتے۔
پس اسی طرح اگر عقول وارواح کی کیفیت جسم میں آجائے یا بیداری میں خواب کی