اس کا تعلیم کرتا ہے کہ نیاز وطلب وشوق وخلوص وامید جو عبودیت کے آثار سے ہیں۔ تمہاری جانب سے ہوں۔ باقی رہا مراتب قرب پر علو اور محض انس میں حضوریہ محض بفضل الٰہی۔
عبد
اس کے رموز آئندہ آتی ہیں۔ مگر باتفاق واجماع مراد اس سے حضور اقدس سرور عالم سید بنی آدم ہیں۔فائدہ: چونکہ مطلق فرد کامل کی طرف متصرف ہوتا ہے اور بندگی میں فرد کامل ہمارے اور تمام عالم کے سردار سید مختار ہیں۔ لہٰذا حضور ہی مراد ہیں۔
لیلا
نکرہ ہے ایک رات اور ظرف یعنی حصہ شب پھر آیت ظاہر ہے۔ معراج قصہ میں اور نص ہے۔ کمال قدرت الٰہی میں کہ وہ ایسے عجیب امور کرتا ہے۔ جو فہم سے باہر قوت سے زائدہیں اور اشارۃً ظاہر ہے کہ آپ صاحب معجز ات دشوار ہیں۔ اس لئے کہ اسراء ایک معجزہ ہے۔ جو آپﷺ سے اﷲ تعالیٰ نے ظاہر کرایا اور اسرار ذات خزائن علوم اس میں منکشف ہوئے۔
احمدی
اس کے یقین میں بہت اختلاف ہے کہا گیا کہ ماہ ربیع الاوّل یا ربیع الثانی یارمضان یا شوال تھا۔ مگر صحیح ومشہور معتمد ستائیسویں رات رجب کی ہے۔ نبوت کے بارہ برس بعد مسجد حرام۔ (مکہ معظمہ)
احمدی
عام ہے کہ عین مسجد ہو یا اس کا حرم الیٰ کہا صاحب تفسیر کبیرنے مسجد اقصیٰ تک جانا ثابت بہ نص قرآنی ہے اور داخل ہونے سے اس آیت میں بحث نہیں۔ فائدہ: شاید امام نے نظر باختلاف مسئلہ الیٰ ایسا تجویز کیا ورنہ قرائن قویہ شہادت دے رہے ہیں کہ مراد یہ یہاں دخول مسجد اقصیٰ ہے۔ ورنہ مشاہدہ آیات ناقص رہتا اور نص کے دخول پر جناب مولانا ابوالحسنات نے حاشیہ عمدۃ الرعایہ ہیں۔
مسجد اقصیٰ
بیت المقدس۔ چونکہ اس وقت تک کوئی مسجد اس سے اور اس کے اس طرف نہ تھی۔ لہٰذا اسے اقصیٰ کہا بارکنا اپنی طرف نسبت برکت کی کی۔ تاکہ عظمت زائد اور برکت معتمد علیہ سمجھی جائے اور مراد اس سے برکت اثمار واشجار وتازگی وبہار وبرکت وجود انبیاء مقابر رسل ہے اور وہ فضائل جو مروی اور منقول ہیں۔ اپنے مقام پر۔