آپ کو مناظرہ سے ایسی ہی گھبراہٹ ہونے کی تو خدا حافظ بالاخر خاموش ہو جاؤں گا۔ لیکن خداسے عرض کردوں گا۔ ’’رب انی دعوت قومی لیلاً ونہاراً فلم یزدہم دعائی الّافرار‘‘ آخر میں ہم صرف علماء اسلام سے بکمال ادب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’’جزاکم اﷲ تعالیٰ خیراً الجزاء المحسنین‘‘ واقعاً آپ حضرات نے پاک اسلام کی حفاظت اور مرزاقادیانی کے لغویات کے جواب دینے میں جان ومال وعلم کے بذل کرنے سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں۔ کیا۔ خداوند عالم اس کے بالعوض آپ کو تو فیقات خیر عطا فرمائے۔
عزیزان من! اگر مرزاقادیانی طالب حق ہوں تو ان کے لئے بس اسی قدر مضمون حق تسلیمی کے واسطے دلیل کافی اور برہان شافی ہے جو صاحب غیرت بامعرفت وبصیرت دیدۂ حق ہیں اور قلب صالح الیقین سے ان حسینی تقابل کو انبیاء سلف سے ملاحظہ فرمالے گا۔ زنگ شبہات اہل شقاق قطعی قلب مظلم اس کے سے پاک وصاف ہو جائے گا اور گرد کدورت کفر والحاد بالکل دہل جائے گا۔ مگر مرزاقادیانی اور ان کے حواریوں کے قلوب چونکہ اہل شقاق کی طرح مختوم منجانب اﷲ اور ظلمت وقسادت فطری سے سیاہ ہیں۔ لہٰذا ان سے اثر اس کا مفقود اور وہی کثافت وتیرگی مشہور وبقول قائل ؎
حق عیاں چوں مہر رخشاں آمدہ
لیک اندر شہر کوراں آمدہ
پس سنئے کہ اس معصوم اور پاک اسلام کو جو آپ کے آغوش میں حسن اتفاق تربیت پارہا ہے۔ نفاق اور تعصب کی آگ سے محفوظ رکھنا آپ کا پہلا فرض ہے۔ اگر مرزاقادیانی کے سے چند نادان کی گرم جوشی اور آپ حضرات کی ذرا کم توجہی سے خدانخواستہ زمانہ کی ناموافق ہوا لگ گئی تو اس کا پھولنا پھلنا سخت دشوار بلکہ اتنی ہستی بھی نہ رہے گی۔ اس وقت آپ حضرات اپنی عرق ریزیوں کا ثمرہ پانے کی بجائے غفلت شعار مشہور ہوں گے۔
’’وما علینا الاالبلاغ فاعتبروا یا اولی الابصار واخردعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ علیٰ محمد والہ الطاہرین ابدالابدین ودھرا الدھرین وختمت فی الثانی من ربیع الثانی ۱۳۴۴ من الہجرۃ المنورۃ فی مبارک حویلی لاہور حررہ فارم الشریعۃ المطہرۃ سید علی حائری لاہوری‘‘