دعویٰ کہ میں امام حسینؓ سے افضل ہوں۔ ایسی دل آزار باتوں میں سے ہے۔ جن کو کوئی شریف مسلمان اپنے ذی عزت دشمن کے حق میں بھی پسند نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ رسول اﷲﷺ کا نواسہ حسینؓ جیسا پیاسہ ممتحن بالایمان کے بارے میں سنے۔ جن کے ساتھ حسن عقیدت وارادت کو اپنا جزو ایمان سمجھتا ہو۔ ’’جراحات السنان لہا التیام ولا یلتام ماجرح اللسان‘‘ یعنی تیرونیزہ کے زخم اچھے ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن زبان کے زخموں کو التیام نہیں ہوا کرتا۔
پھر فرمادیجئے مرزاقادیانی! امام حسینؓ کی نسبت آپ کی زبانی جراحتوں نے ترجیح پائی یا یزید کے تیر ونیزوں کے زخموں نے۔ ناظرین اب سوچنے کے لائق یہ بات ہے کہ مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ کس غرض سے ہے۔ آیا منجملہ ان کی گذشتہ نیک ظنیوں کے یہ بھی نیک ظنی اور حسن عقیدت اس کا محرک ہے جو ہر فرد اسلامی پر لازم ہے کہ خاندان رسالت کے ساتھ ولا رکھے یا وہ بغض وعداوت ہے۔ جو اسلامی تفریق کے وقت سے مسلمانوں کا پولیٹکل مسئلہ قرار پایا۔ پہلی صورت میں تو مسلمانوں کی ہی طرح مرزاقادیانی کی بھی روش ہونی چاہئے کہ رسول اﷲ اور آنحضرتﷺ کی معصوم ومطہر اہل بیت علیہم السلام کی تعظیم وتوقیر میں کم سے کم وہ آداب ملحوظ رکھے جو اپنے باپ دادا سے برتتا ہے یا اپنے بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ جس سے ہر دیکھنے والا محسوس کر سکے کہ مرزاقادیانی انہیں واجب التعظیم سمجھتے ہیں۔ جس کے بارے میں رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں: ’’لا یؤمن عبد حتی اکون احب الیہ من نفسہ وتکون عترتی احب الیہ من عترتہ‘‘ یعنی کوئی بندہ مؤمن نہیں ہوتا ہے۔ جب تک کہ مجھے اپنے نفس سے اور میری عترت کو اپنی عترت سے زیادہ دوست نہ رکھے۔ ’’اذ لیس فلیس فدونہ خرط القتاد‘‘ دوسری صورت دو طرح سے نمایاں ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کھلم کھلا کسی کو برا کہے اور اظہار عداوت کرے۔ جیسا کہ یزید کے زمانہ میں عام طور پر اہل بیت رسالت کی نسبت کیاگیا۔ لیکن مرزاقادیانی بحمد اﷲ مسلمانوں کے کمال اتفاق ویکجہتی سے تو یزید کی طرح علانیہ اظہار عداوت نہ کر سکا۔ باقی رہی دوسری صورت وہ یہ کہ دوستی کے پیرایہ میں اپنی عداوت ظاہر کرے اور دل کا بخار نکالے جو خاص طریقہ منافقوں کا ہے۔
پس مرزاقادیانی کا دعویٰ اس آخری سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔ مگر جوش عداوت نے پردہ فاش کر دیا ہے۔ جس سے ہر کس وناکس پر ان کی عداوت حسین علیہ السلام سے ظاہر ہوگئی۔ ورنہ باغیرت مسلمان ایسی جرأت ہرگز نہیں کر سکتا۔ مرزاقادیانی میں نہایت خیرخواہی سے عرض کرتا