بابدان بدباش وبانیکاں نکو
جائے گل گل باش وجائے خارخار
بندۂ خدا فرمائیے کیا اب بھی ہمارا دعویٰ صحیح نہ ہوا کہ حسینؓ اور اس کے آباء طاہرین کے غلاموں میں بھی آکر محبوب کئے جاؤ تو آپ اور آپ کی ستر پشتوں کے واسطے ہزارہا فخر سے زیادہ فخر تھا۔ مگر مذکورہ تحقیقات سے مرزاقادیانی کے خیالات کا پورا حال ظاہر ہے کہ اولاد رسول کے حالات میں ان کو کیسے کیسے مغالطہ پیش آئے ہیں اور حق بجانب بھی ہے۔ جب کہ آنحضرت (حسینؓ) کی نسبت مرزاقادیانی کا دل صاف ہی نہ ہوا تو اس کو آنحضرت (حسینؓ) کے حالات کیونکر معلوم ہوویں گے۔ یہ حالات تو ان واقعات صحیحہ کے ہیں۔ جس کی تحریف وتغیر سے ان کو چنداں غرض نہیں۔ بخلاف اپنے الہام اور خوابوں کے جس پر ان کے مذہب کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ وہاں تو ہزاروں لاکھوں افتراء سے بھی ان کو پرہیز نہ ہوگا…
بندۂ خدا آپ کا تو دعویٰ افضلیت عیسیٰ علیہ السلام اور حسینؓ فداہ روحی پر کرنا درکنار اب تو ابن اﷲ ہونے کا بھی دعویٰ آپ کر بیٹھے۔ دیکھو لکھتے ہیں۔ جو ان دنوں میں انہیں الہام ہوا ہے۔ ’’انی بایعتک بایعنی ربی انت منی بمنزلۃ اولادی‘‘ (دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) بندۂ خدا آپ کی ایمانداری کا کوئی ٹھکانا بھی ہے یا نہیں۔ کبھی مثیل مسیح بنتے ہیں۔ کبھی خود مسیح کبھی مہدی بنتے ہیں۔ کبھی مہدی بھی اور مسیح بھی۔ اب تو اپنے نفس کی تعریف کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام اور حسینؓ شہید سے افضل بنے۔ ادھر ابن اﷲ ہونے کا بھی دعویٰ کر بیٹھے۔ صرف ایک خدائی کا دعویٰ باقی رہ گیا۔ کہاں تک نفسانی فخر اور مدح وثناء کیجئے گا۔ قول حضرت امیر علیہ السلام ہے۔
تعریف المر علی نفسہ قبیح
ثناء خود بخود کردن نمے زیبد ترا صائب
کیوں مرزاقادیانی! آپ کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ خدا کی طرف حقیقتاً اس واسطے نسبت ولدیت ناجائز ہے کہ خدا جسم اور جسمانی لوازم سے منزہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر حقیقتاً خدا فرزند رکھتا ہو تو لازم آئے گا فرزند کے حادث ہونے کی وجہ سے خدائے قدیم بھی حادث ’’ہواذلا یولد الحادث الامن الحادث‘‘ کیونکہ حادث نہیں متولد ہوتا مگر حادث سے، اور یا خدا کے قدیم ہونے کی وجہ سے فرزند حادث بھی قدیم ہو تو یہ دونوں صورتیں باطل ٹھہریں۔ اب لیجئے مجازاً