تھے کہ مجھے اب اپنی ہی خلافت پر الہام ہونے لگا اور عبدالکریم کہہ سکتے تھے کہ مجھے اپنی خلافت کے خواب آنے لگے۔ پھر آپ یا اور کوئی ان کے الہام یا خواب کے جواب میں کیا کہہ سکتا؟ واہ مرزاقادیانی واہ!
آخر نبوت اور خلافت کو آپس میں تقسیم فرماہی لیا۔ کوئی مانے نہ مانے آپ کی بلاء سے امام حسینؓ نے تو ایسے اعلیٰ سے اعلیٰ جوہر دکھائے۔ جس کی وجہ سے وہ تمام خلق پر افضل کہلائے اور ان کے کمالات نے زمین آسمان اور حجر اور شجر اور ملائکہ وحیوانات غرض جنوں اور انسانوں کے قلوب پر ایسا اثر عظیم ڈالا کہ چالیس شبانہ روز تک ان کی شہادت پر روتے اور نوحہ کرتے رہے اور اس کمال اور جوہر شہادت کے دکھانے کی وجہ سے تو آنحضرتﷺ کی ذریت میں امامت وخلافت خدا نے عطاء فرمائی۔
کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی
مرزاقادیانی! آپ نے بے فائدہ الہام اور خوابوں میں اس قدر کمال حاصل کیا زحمت تو آپ کو بہت ہی اس کمال کے حاصل کرنے میں ہوئی ہوگی۔ جس پر ہمارا بھی صاد ہے۔ مگر آپ کو اس کمال سے کیا فائدہ۔ جب کوئی آپ کے اس کمال کو مانتا ہی نہیں۔ پس بہتر یہ ہے کہ اب اور کوئی کمال حاصل کریں۔
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ
…پس مرزاقادیانی! آپ لڈو اور پیڑے اور پلاؤ وزردہ کھانے کی وجہ سے جو بیچارے دو چار غریب مزدوری پیشہ کے چندوں سے جمع ہوکر آپ کے ہاں پکتا ہے۔ حسینؓ جیسے ممتحن پر مدعی افضلیت بن بیٹھے۔ اگر ایسا نہیں تو آپ ثابت کر دیجئے کہ سوائے الہام اور خوابوں کے آپ نے بھی ان کی مانند خدا کی کوئی عظیم الشان خدمت گذاری بجالائی ہے۔ جس کو کہ ہر خاص وعام تسلیم کر سکے نہ ایسی خدمت گذاری کہ جس کو صرف آپ یا آپ کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہی تسلیم کریں۔ ’’ودونہ خرط القتاد‘‘ مگر چونکہ معلوم ہے آپ نے ادنیٰ سے ادنیٰ بھی خدمت گذاری خدا کی نہیں کی۔ لہٰذا مرزاقادیانی! آپ اپنے دعوے میں مطلق کاذب ہیں۔ پس آپ ہر خاص وعام پر صاف طور سے ثابت ہوگیا کہ ’’بمفاد حب الدنیا رأس کل خطیئۃ‘‘ آپ حب دنیا میں اس قدر مستغرق ہیں کہ خدا اور کسی پیغمبر وامام کی بھی ذرہ بھر پاس خاطر نہیں۔ ورنہ جس کو ذرا سی بھی اسلام کی بو ہوگی۔ ہرگز اس رسالہ کے ملاحظہ کے بعد ایسا غلط دعویٰ نہ کرے گا۔