وغیرہ نے بھی تو دولت سے ہی خدائی کا دعویٰ کیا اور ہزاروں نے نبوت وامامت ومہدویت کاذب کا دعویٰ کیا اور آپ کی طرح مریدوں کی تنخواہیں مقرر کر دیں۔ پھر جو جس کے دل میں آگیا اس نے الہام اور خواب وغیرہ سے بیان کر دیا۔ جس کی وجہ سے بہت ضعیف العقل ان زمانوں میں بھی بے دین ہوگئے۔ اب خود ہی آپ انصاف سے کہہ دیں کہ آپ کے اور سابقہ زمانہ کے مدعیوں کے دعوؤ ں میں کیا فرق ہے۔ ہم اسی واسطے کہتے ہیں کہ نبی اور امام پر واجب ہے کہ کوئی برہان قاطع دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرے۔ جس کی وجہ سے بالاعلان بین الحق والباطل صاف طور پر تمیز حاصل ہو جائے۔ مرزاقادیانی! انصاف سے کہیے کہ آپ کے الہاموں پر کس طرح کسی کو یقین ہوسکتا ہے۔ جب آپ اثبات دعویٰ میں الہام یا خواب پیش کریں گے تو لوگ کہہ سکتے ہیں۔ جب کہ ابھی آپ کا سچا اور جھوٹا ہونا ہمیں معلوم نہیں ہے تو ہم کس طرح یقین کر سکتے ہیں کہ آپ کا یہ الہام یا خواب دعویٰ امامت کے ثبوت میں سچ ہے اور اگر فرضاً آپ کو اس الہام یا خواب میں سچا مان بھی لیا جائے تو اس خواب کا رحمانی یا شیطانی ہونا کس طرح معلوم ہو سکتا ہے۔ پس ’’بمفاد بناء الفاسد علے الفاسد فاسد‘‘ یعنی بناء رکھنی باطل امر کی باطل دلیلوں پر باطل ہے۔ آپ کا دعویٰ اور یہ دلیلیں سب فاسد اور باطل ہوگئیں۔ ہاں اگر کوئی معقول دلیل اور برہان آپ رکھتے ہوں۔ ’’فعلیک اتیانہ وعلینا بیانہ‘‘…
اب فرمائیے کہ آپ کا ید بیضاء کہاں اور من وسلویٰ کدھر اور کوہ طور کس جگہ اور عصاء مبارک کیا ہوگیا۔ کون چور لے گیا۔ بندۂ خدا تو نے بھی کوئی ذاتی یا صفاتی کمال تو دکھا دیا ہوتا یا کہ آپ کے صرف الہام اور خواب ہی خواب ہیں۔ آخر کہاں تک رانڈ عورتوں کی مانند خواب ہی دیکھتا رہے گا۔ آپ بھی میدان کمالات میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ ہی جوہر دکھادیں۔ تاکہ جو ہر شناسوں میں آپ کا صدق وکذب ثابت ہو جائے۔ ورنہ مرزاقادیانی عوام انام ’’انہم الا کالانعام بل ہم اضل سبیلا‘‘ کا آپ کی تصدیق کر لینا، عقلاء جوہر شناس کے نزدیک کم اور مضحکہ صبیان نہیں۔ بھلا جب کہ آپ کو نورالدین اور عبدالکریم اور امروہی وغیرہم نے بے دلیل وبرہان کے امام اور مسیح اور مہدی بنادیا تو آپ کیسے انہیں اپنا خلیفہ نہ بناتے۔ ورنہ ضرور احتمال تھا کہ وہ آپ کی نبوت میں دست اندازی کرتے۔ کیونکہ ثبوت تو آپ کی نبوت اور ان کی خلافت کا الہام اور خوابوں پر مبنی ہے۔ پھر جب انہیں یہ خلافت نہ ملتی تو یہ الہام اور خواب بھی انہیں اپنی طرف ہی ہونے لگتے۔ اس خربازاری میں پوچھنے والا ہی کون تھا اور اگر کوئی پوچھتا تو نورالدین کہہ سکتے تھے