طرف تشریف لائیں تو امام علیہ السلام نے کمال صبر وتحمل سے ان کو تسلی دی اور اپنی عباء ان پر ڈال کر ان کو خیمہ میں پہنچا دیا۔ کیوں صاحب حسینؓ کا ایوب علیہ السلام نبی سے بھی تقابل ملاحظہ فرماچکے۔ کس کے صبر وتحمل کو ترجیح ہوئی۔ پھر مرزاقادیانی اپنے صبر وتحمل کو بھی ملاحظہ فرمالیں اور سنبھل کر میدان مناظرہ میں قدم رکھیں (ورنہ قدمش میلغزد) خدا انصاف دے ان بے بصیرتوں کو جو ’’یریدون ان یطفئو نور اﷲ بافواہہم واﷲ متم نورہ ولو کرہ المشرکون‘‘…
مرزاقادیانی! بہادری تو تب تھی کہ آپ کا بھی امتحان صرف ایک مصیبت میں ہی کیا جاتا اور آپ پاس ہو جاتے تو اس وقت اپنے ابناء جنس پر مدعی افضلیت ہوتے تو عیب نہ تھا۔ ’’ودونہ خرط القتاد جا حظ‘‘ تو یوں لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ ’’نحن اہل البیت لا یقاس بنا احد فی شیٔ‘‘ یعنی ہم وہ اہل بیت رسول اﷲ ہیں کہ کوئی شخص بھی کسی شیٔ میں ہمارے سے قیاس نہیں کر سکتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ نہ کوئی ان کی مانند خدا کی خدمت گذاری میں ایسا عظیم الشان امتحان دے سکتا ہے اور نہ کوئی خود کو ان کے ساتھ قیاس کر سکتا ہے۔ پھر فرمائیے بھلا آپ نے ان کی مانند بغیر کئے کسی معقول خدمت گذاری کے کیونکر ان سے قیاس کیا۔ ہاں اگرآپ بھی ان کی مانند کسی معقول عظیم الشان امتحان الٰہی میں پاس ہوئے ہوں تو ثابت کیجئے۔ بشرطیکہ الہام اور خواب وتاویل سے دست بردار ہو جاویں۔
اجی حضرت! خواب بینیاں تو رانڈ عورتوں کے کام ہیں۔ جو سچے جھوٹے رحمانی شیطانی خواب دیکھ کر دل اپنا خوش کر لیا کرتی ہیں۔ بھلا کبھی نبوت یا مہدویت یا دین وملت بھی کسی کی خوابوں سے ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ تو حضرت مسئلے نہ ہوئے ٹھسلے ہوئے۔ اہل اسلام جنہیں حضرت رسول اﷲﷺ کے تصدق سے حکمت وکتاب خدا سے ملی ہو۔ کب ایسے ٹھسلوں کو جن کے ثبوت کا دارومدار معدودے چند ضعیف العقل عورتوں کی خوابوں پر ہو، تسلیم کر سکتے ہیں۔ مرزاقادیانی بھی تو عورتوں کے مکروفریب ہیں۔ ’’ان کید کن عظیم‘‘ کہ آج ہم نے مرزاقادیانی آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ ایسے آپ ویسے۔ آپ کے پاس چار پیسے اور آپ اتنے میں ہی خوش ہوگئے۔ کسی کو کسی کو روپیہ عنایت فرمادئے۔ پھر فرمائیے۔ بھلا جن کے مکروفریب وکید کو قرآن میں عظیم شمار کیا ہو وہ شب وروز آپ کو خواب میں کس طرح نہ دیکھیں گے۔ بندہ خدا یہ تو واضح ہے کہ حضرت روپیہ جھوٹوں کو دنیا میں سچا بنادیتا ہے۔ پہلے زمانوں میں بھی تو ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ فرعون ونمرود