اب ناظرین وسامعین جلسہ سوچ لیں اور خیال کریں کہ مرزاقادیانی کامل مسلم ہیں یا نہیں۔ اب یہ سوال ہوسکتا ہے کہ راستہ بند ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی نے حج نہیں کیا۔ اس لئے ان روایات کے تحت میں نہیں آسکتے۔ جواب یہ ہے کہ ہجری۱۳۱۷ھ سے لے کر ہجری ۱۳۱۹ھ تک راستہ حج کا کھلا رہا۔ پھر مرزاقادیانی نے کیوں بیت اﷲ کا قصد نہ کیا۔ جناب مولانا مولوی عبدالاوّل خلف مولانا عبداﷲ غزنوی بھی اسی سال میں حج کو تشریف لے گئے۔ نیز عبدالواحد داماد مولوی حکیم نورالدین ومولوی عبدالرحیم غزنوی پچھلے سال حج کر کے آئے۔ کیا مرزاقادیانی کے لئے ہی راستہ بند ہے۔ لہٰذا یہ سوال کرنا بیہودہ ثابت ہوا۔
دوسرے یہ سوال ہوسکتا ہے کہ مرزاقادیانی کے لوگ عرب مخالف ہیں۔ ممکن ہے کہ قتل کر دیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں لکھا ہے: ’’انت فیہم بمنزلۃ موسیٰ‘‘ یہ الہام ہے یعنی الہام ہوا کہ اے مرزا تو لوگوں میں بمنزل موسیٰ ہیں اور لوگ سب فرعونی۔ جب مرزاقادیانی موسیٰ کی گدی کے مالک ہیں تو موسیٰ علیہ السلام کی طرح خوف نہ کرتے۔ جب اﷲ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کیا تو صرف حضرت ہارون علیہ السلام آپ کے مددگار تھے اور فرعون اپنے وقت میں خدائی کا دم مارتا تھا اور فوج فرعون کی کثرت سے تھی۔ ولیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی فوج کا ہرگز خوف نہ کیا۔ بلکہ فرعون کے سامنے جاکر اپنے من جانب اﷲ رسول ہونے کو بیان کیا اور اﷲ کی مدد سے فوق پایا۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں فرعون کو غرق کیا۔ علیٰ ہذا القیاس! اگر مرزاقادیانی کا الہام مذکورہ بالا من جانب اﷲ ہے تو پھر عرب کے لوگوں کا خوف کیا۔
منبر حضرت موسیٰ والا مرزے ملیا یارا
تے طرف عرب دے حج کرن نو جائے نہ ڈردا مارا
جے کر منبر موسیٰ والا مرزے ملیا بھائی
پھر وانگ موسیٰ دے خوف نہ کردا کردا حج روانی
پھر (انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں ہے۔ ’’انی ناصرک انی حافظک‘‘ یعنی الہام ہوا کہ میں تیرا مددگار ہوں اور نگہبان ہوں۔ جاننا چاہئے کہ جس کا ناصر اور حافظ خدا ہو پھر اس کو خوف کاہے کا رہا۔ جب کہ مرزاقادیانی ہی کا اپنے الہام پر ایمان نہیں تو غیروں کو کس طرح سے تسلی ہو۔