افسوس سے کہتا ہوں کہ سائلوں کا سوال کیا تھا اور جواب کیا۔ سائلوں نے مرزاقادیانی کے کامل مسلمان ہونے کا سوال کیا تھا۔ نہ ایمان کا۔ ایمان اور اسلام میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ قرآن شریف ’’احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنّاوہم لا یفتنون (عنکبوت:۱)‘‘ {کیا گمان کیا ہے لوگوں نے یہ کہ چھوڑے جاویں گے اتنے ہی پر کہ ایمان لائے ہم اور وہ ازمائے نہ جائیں۔}
اے میرے پیارے دوستو! اس آیت شریف کی طرف غور فرماؤ اور انصاف سے سوچو کہ فرمانا پروردگار کا یہ کہ گمان کر لیا۔ لوگوں نے اسی پر کہ ہم آمنا کہنے سے فلاح پاجاویں گے۔ یعنی ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کہنے سے، حالانکہ وہ آزمائے نہ جاویں کہ کلمہ تو پڑھا آگے عمل بھی کیا یا نہیں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔ چنانچہ: ’’قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم وان تطیعوا اﷲ ورسولہ (حجرات:۱۴)‘‘ {کہا گواروں نے کہ ایمان لائے ہم، کہہ یا رسول اﷲ نہ ایمان لاؤ تم ولکن کہو مسلمان ہوئے ہم اور ابھی نہیں داخل ہوا ایمان بیچ دلوں تمہارے کے، اور اگر فرمانبرداری کرو اﷲ کی اور رسول اس کے کی۔}
ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ ایمان اور اسلام میں بڑا فرق ہے۔ ایمان کہتے ہیں۔ صرف قرآن اور رسول کے مان لینے کو، اور اسلام کے معنی ہیں فرمانبرداری کے بھی اپنا جان ومال اﷲ کے راہ میں فدا کرنا۔ پھر قرآن شریف میں ارشاد ہوا واتقوا اﷲ آخر تک۔
ترجمہ یہ ہے: ڈرو اﷲ سے حق ڈرنے اس کے کا اور نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔
غرضیکہ اسلام اور ایمان میں بڑا بھاری فرق ہے۔ جیسا کہ یہاں ہوا ایک حدیث میں آیا ہے۔ ’’عن ابن عمرؓ قال قال رسول اﷲ بنی الاسلام علی خمس شہادۃ ان لا الہ الا اﷲ وان محمد عبدہ ورسولہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ والحج وصوم رمضان متفق علیہ ومشکوٰۃ‘‘ {حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ کہا فرمایا رسول اﷲﷺ نے اسلام کی بنا پانچ چیزوں پر ہے۔ کلمہ، قائم کرنا نماز کا، اور دنیا زکوٰۃ کا، اور حج کرنا، اور روزہ رکھنا رمضان کا۔}
اس حدیث سے صاف ثابت ہوا کہ جو شخص باوجود قدرت ہونے کے کسی ایک بنا کو بھی