وآخرین منہم لما یلحقوبہم وھو العزیز الحکیم (الجمعہ:۲،۳)‘‘ {وہی خدا ہے جس نے بھیجا ان پڑھو میں رسول ان میں سے جو پڑھتا ہے۔ ان پر آیات اس کے اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت۔ اگرچہ تھے گمراہی میں اس سے پہلے اور اٹھایا اس رسول کو ایک دوسرے لوگوں کے واسطے بھی انہیں میں سے جو ابھی تک نہیں ملے ان میں وہی زبردست حکمت والا ہے۔}
اس آیت کی تفسیر میں رسول اﷲﷺ نے اصحابوں کے سوال کرنے سے کہ وہ کون ہوں گے تو آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہوں گے۔ مسلمان اہل فارس تھا اور مرزاقادیانی بھی اہل فارس ہیں اور آیت کے بطن میں بحساب ابجد ۱۲۷۵ تعداد میں جو مرزاقادیانی کے سن بلوغت کا زمانہ ہے۔ جو حکمت سے خالی نہیں اور چوتھی آیت ’’ھو الذی ارسل رسولہ‘‘ یعنی وہی خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے لئے بھیجا اور ساتھ دین حق کے تاکہ تمام دینوں پر غالب ہو۔ اگرچہ مشرکین کو برا معلوم ہوا۔ اس آیت کی تفسیر میں بہت مفسر قائل ہیں کہ مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ اس وقت یہ غلبہ ہوگا اور رسول اﷲﷺ دو کام کے لئے آئے ہیں۔ ایک تکمیل ہدایت دوسری تکمیل اشاعت اور امر اوّل رسول اﷲﷺ نے پورا کیااور امر دوئم یہ زمانہ آخیر کے ساتھ مشتق ہے۔ جو مسیح موعود کے ہاتھ پر پورا ہوگا تاکہ قرآن شریف کی تمام قوموں پر حجت پوری ہو جائے۔ جب حجت پوری نہ ہوئی تو قیامت کا آنا غیر ممکن ہے۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے: ’’حتی نبعث رسولا‘‘ ہم کسی کو عذاب نہیں دیتے۔ جب تک رسول حجت پوری نہیں کرتے اور اس طرح قانون جاتا ہے۔ اب ہی وہ زمانہ ہے جو ایسے آدمی کی ضرورت ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے جوش میں ہے۔ آریوں کی اشاعت عیسائیوں کی اشاعت اور برہمو اور سناتن یہود وغیرہ جوش میں آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں آ کر اپنے مذہب کی سچائیاں بیان نہ کرے تو کون سا وقت ہے کیونکہ اکھاڑہ تیار ہے اور ڈھول بج رہے ہیں۔ لوگوں کا اجتماع ہے۔ ایسے وقت میں پہلوان نکل کر مالی نہ لے تو کون سا اور وقت ہے اور مسلمانوں میں اندرونی فساد وہابی، حنفی، خارجی، شیعہ وغیرہ کے اس قدر تنازعات ہیں جو حدو حساب نہیں۔ اگر اس وقت نہ آتا تو کس وقت آتا۔ زمانہ دھائی دے رہا ہے کہ مصلح کے ضرورت ہے اور آیت شریفہ بالا میں ارشاد ہے اور ’’علے الدین کلہ‘‘ کا جملہ دلالت دے رہا ہے مسیح اس وقت آئے گا بہت دینوں کا زور ہوگا۔ اس آیت شریفہ کے موجب اور وقت کے لحاظ عیسیٰ ہونے کا دعویدار نیک ہے اور علاوہ اس کے رسول اکرمﷺ نے