خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’انا ہدینہ السبیل اما شاکراً واما کفوراً‘‘ یعنی ہم نے ہدایت کی راہ کھول دی جو قبول کرے ہدایت کو یا قبول کرے کفر کو۔ غرضیکہ مماثلت یہیں تک ثابت کی ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو نیک اور متقی بنا دے اور خدا کی امانت کو نگاہ رکھے۔ وہ ابن مریم ہو جاتا ہے۔ اگر ابن مریم بن گیا تو کیا قصور ہے۔ پھر قرآن میں یہ بھی ثابت کر دیا ہے خلفاء کے مثل بھی ہوتے ہیں۔ ’’وعداﷲ الذین آمنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنّہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم‘‘ یعنی اﷲ وعدہ کرتا ہے مومنوں سے کہ جو تم سے نیک ہوں وہ خلیفہ ہوں گے۔ زمین میں جیسے خلیفے ان سے پہلے بنائے گئے۔ خدا کا وعدہ ہے کہ امت محمدیہ کے ساتھ تم میں ایسے خلیفے ہوں گے۔ جیسے بنی اسرائیل کے لئے اب سوچنا چاہئے کہ بنی اسرائیل میں کیسے خلیفے ہوئے ہیں۔ وہ خلفائے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہے ہیں۔ جو قریباً چودہ سو برس تک رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے آخری خلیفے تھے۔ اسی طرح اس امت میں بھی بموجب وعدہ اﷲ یہ چودھواں خلیفہ ہے۔ صدی چہاردہم پر ہے جس کی تعداد باہم ملتی جلتی ہے۔ غور سے مل جاتے ہیں۔ ورنہ اس صدی پر یعنی حالت زور جو صدہا حملے اسلام اور بانی اسلام اور قرآن پر کئے گئے ہیں۔ جو مخالفین کی کتابیں دیکھنی چاہئیں۔ کون خلیفہ ہے واقعہ سابقہ متواترہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک صدی پر خلیفہ ہوتا چلا آیا ہے اور یہ صدی چہار دہم جس کے انیس سال گذر چکے ہیں۔ اب تک کوئی نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے اور آیت شریفہ کی تفسیریں رسول اﷲ فرماتے ہیں کہ: ’’کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء وفیکثرون قالوا فماتامرنا یا رسول اﷲ قال فواببیعۃ الاوّل فالاوّل اعطوہم حقہم فان اﷲ سائلہم عمّا استر عاہم (بخاری شریف ج۱ ص۴۹۱) ‘‘ یعنی تھے بنی اسرائیل میں سیاست والے انبیا جب ہلاک ہو گا نبی تو اس کے پیچھے نبی ہوگا اور اب بات یہ ہے کہ میرے پیچھے کوئی نبی نہیں ہوگا۔ شتاب ہوگا خلفاء ہوںگے اور کثرت سے ہوں گے پورا کرو ان کی بیعت اوّل کو اور دو ان خلیفوں کو حق ان کا تحقیق ان کا حق اﷲ تعالیٰ پوچھنے والا ہے۔ اسے جیسا کہ قرآن میں تین آیت زمانہ کی خبردیتی ہیں۔ ایک گروہ آخر زمانہ میں ہوگا۔
سورت الجمعہ میں ہے۔ ’’ھو الذی بعث فی الامین رسول منہم یتلوا علیہم وآیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتب والحکمۃ وان کانوا لفی ضلال مبین