ایک حکم کی تبدیل یا تفسیر کر سکتا ہو۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو ہمارے نزدیک جماعت مؤمنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے۔ (ازالہ اوہام ص۱۳۷تا۱۳۹ حصہ اوّل، خزائن ج۳ ص۱۷۰)
جواب سوال دوئم، مرزاقادیانی کا دعویٰ مثل مسیح ہے نہ کوئی اور تو ہم اس قسم کی مماثلت کو قرآن سے غور کرتے ہیں کہ قرآن شریف ایسی مماثلت کی اجازت دیتا ہے یا نہیں تو ثابت ہوتا ہے۔ خصوصاً اور عموماً اجازت دیتا ہے۔ خصوصاً ’’انا ارسلنا الیکم رسولاً شاھداً علیکم کما ارسلنا الیٰ فرعون رسول (مزمل:۱۵)‘‘ یعنی ہم نے تمہاری طرف رسول بھیجا۔ شاید جیسا کہ فرعون کی طرف موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تو یہاں محمد رسول اﷲﷺ مثل موسیٰ علیہ السلام ثابت ہوئے۔ اگر ان کو (حضورﷺ) موسیٰ علیہ السلام کہا جاتا تو کچھ حرج کی بات نہیں۔ عموماً یہ ہے کہ ’’ضرب اﷲ مثلا للذین کفروا امرات نوح وامرات لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتہما فلم یغنیا عنہما من اﷲ شیئاً وقیل ادخلا النار مع الدخلین وضرب اﷲ مثلاً للذین اٰمنوا امرات فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ ونجنی من فرعون وعملہ ونجنی من القوم الظّٰلمین ومریم ابنت عمران التی حصنت فرجہا فنفخنا فیہ من روحنا وصدقت بکلمت ربہا وکتبہ وکانت من القانتین (تحریم:۱۱،۱۲)‘‘ یعنی یہاں کی مثال اﷲ نے واسطے کفار نوح اور لوط کی بیوی کی وہ دو عورتیں ہیں ہمارے دو بندوں صالحوں کے نیچے۔ پس دونوں نے خیانت کی اور نہ فائدہ پہنچا ان دونوں کو اﷲ سے کچھ کہا کیا گیا۔ داخل ہو جاؤ۔ آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ اور بیان کی مثال اﷲ نے واسطے مومن کے عورت فرعون کی جس وقت کہا کہ اے رب بنا واسطے میرے نزدیک اپنے گھر جنت میں اور نجات مجھ کو فرعون سے اور اس کے عمل سے اور نجات دے قوم ظالموں سے اور مریم بیٹی عمران کی جس نے محافظت کی شرم گاہ اپنی کی پس پھونکا ہم نے اس میں روح اپنی کو اور مانتی تھی اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور تابعدار تھی اور ان آیات شریف سے ثابت ہوا کہ مماثلت جائز اور عادت اﷲ ہے۔
مامور اور مؤمن اور کفار کے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں پر کافر اور مؤمن کے مقابلہ پر عورتوں کی مثال رکھی ہے۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ عورتوں میں قوت الفالیہ ہوتی ہے جو مرد کی قوت فاعلہ سے اثر لیتی ہے۔ ایسا ہی مرد کے لئے وہ قوادئے گئے ہیں قبول کرنے کے جیسا