کا بیان ہے۔ حالانکہ اس جگہ بخاری میں حضرت مسیح کا کوئی بھی ذکر نہیں۔ فافہم!
غرضیکہ شام تک اسی طرح سے بحث ہوتی رہی۔ مگر مرزائیوں نے ایک بھی سند قوی حضرت مسیح کی وفات میں ثابت کر کے نہ دکھائی۔ آخر فتح الدین نے اپنے رسالہ سے ایک آیت اثبات دعویٰ وفات مسیح میں پڑھی۔ مولوی صاحب نے فوراً پکڑا کہ اگر یہ آیت تمام قرآن سے انہی لفظوں میں جو کہ آپ نے صفحہ۱۹سے۲۰ تک پڑھی ہے۔ دکھائیں تو میں ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا۔ جب قرآن شریف کھولا گیا تو ان لفظوں سے آیت ثابت نہ کر سکے اور ایسے نادم ہوئے کہ رات بھر آپس میں لڑائی ہوتی رہی۔ بلکہ فتح الدین کو اس کے ساتھیوں نے کہا کہ بہتر ہے کہ تم اس کتاب کو بند کر دو۔ اس نے کہا دو صد روپے کی کتابیں میں کس طرح سے جلادوں۔ پر فتح الدین مرزائی وفات مسیح کا ثبوت دینے سے عاری ہوگئے اور دلائل ختم ہوگئے تو خود بحث سے خروج کر کے ایک آیت سورہ نور کی پڑھ کر مرزاقادیانی کا مسیح ہونا ثابت کرنا شروع کر دیا تو مولانا صاحب اﷲ دتہ نے اپنے وقت میں اور اپنی تقریر میں مرزائیوں کو وہ زک دی کہ خدایا پناہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو۔ مولانا صاحب موصوف نے فرمایا ہمارے پاس تو ابھی دلائل حیات مسیح کے اتنے ہیں کہ دوروز اور بھی ہم بیان کریں تو خاتمہ نہ ہوگا۔ آپ نے بحث حیات وممات کو چھوڑ کر کیوں نزول کا مسئلہ شروع کر دیا۔ حالانکہ آپ نے اپنے گریز کو قبول نہیں کیا یا اپنی ہار قبول کرو ورنہ بحث کرو۔ اسی لئے تو مولانا صاحب نے پہلے ہی سے فرمایا تھا کہ بحث نزول میں ہو۔ اس وقت آپ نے قبول نہ کیا۔ اب خود ہی اپنا وارد سکہ چلا کر نزول کی طرف شروع ہوگئے۔ مرزائی سن کر حیران ہوئے اور چہروں پر زردی کے آثار نمودار ہوئے۔ آخر یہ صلاح قرار پائی کہ صبح کو آپ لوگ جلسہ کے معاون پرچہ تحریری دیں اور ہم مرزاقادیانی کے مثیل مسیح ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔ چنانچہ وہ پرچہ جوجواب مولانا صاحب کا ہے آگے درج ہے۔ صبح کو پرچہ جمال الدین (قادیانی) کو دیا گیا۔ جمال الدین نے علیحدگی میں بیٹھ کر پرچہ کا جواب شروع کیا۔ ادھر مولوی اﷲ دتہ اور فتح الدین (قادیانی) تقریر میں شاغل رہے۔ مولانا صاحب نے مرزاقادیانی کی پیشین گوئی کی وہ قلعی کھولی جو مولوی صاحب کا حق تھا۔ لوگوں کو پورے طور سے معلوم ہوگیا کہ مرزاقادیانی کے عقائد قرآن شریف اور حدیث صحیح اور اقوال صحابہ سے بالکل خلاف ہیں۔ غرضیکہ لوگوں پر مخفی نہ رہا کہ مرزاقادیانی بھی قرآن شریف کے اوپر عمل کرنے والے ہیں۔ آخر کار پرچے ہر دو عالم مجلس میں سنائے گئے جو سوال مرزائیوں کے پیش ہوئے۔ وہ ہر دو سوال ذیل میں درج ہیں۔