ہمارے مقال پر بصریح العبارۃ دون التلویح والاشارہ ناطق ہیں۔ اگر آپ بالعکس بغیر کسی برہان وحجت قاطعہ کے آنحضرت پر صرف خود ساختہ الہام سے بہتر اور افضل بن بیٹھے حالانکہ خدا فرماتا ہے۔ ’’لم تکونوا بالغیہ الا بشق الانفس‘‘ یعنی ہرگز تم اس مرتبہ رفیعہ افضلیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ مگر نفسوں کے توڑ ڈالنے سے واہ قادیانی واہ!
این فضیلت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خداے بخشندہ
…مرزاقادیانی! اب کیوں نقاب منہ پر ڈال لیا۔ ذرا میری طرف تو آنکھ اٹھا کر دیکھئے۔ آپ کو ایسے شہسواراں عرصہ صبر وشہادت سے کیا مناسبت اور نامداران بقعہ شجاعت سے کیا تقابل۔ میں نہیں جانتا۔ پھر کیوں اور کس دلیل وبرہان سے آپ حسینؓ جیسے ممتحن پر مدعی افضلیت ہوئے۔ اگر محض الہام ہے جو آپ کے قول سے آپ کو ہوا تو اس کی کیا تصدیق۔
چہ خوش خود مدعی اور خود ہی مصدق بنے
گر ہمیں مکتب وہمیں ملاست
کار طفلاں تمام خواہد شد
اگر آپ کے قول سے بھی الہام کے یہی معنی ہیں کہ القاء فی القلب تو ہر حیوان ووحوش وطیور اور انسان کو نیک ہو یا بد ہوا کرتا ہے۔ پھر آپ کی کیا خصوصیت۔ انسان بسبب اشرف المخلوقات ہونے کے بجائے خود، میں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کی تمثیل دینا چاہتا ہوں۔ تاکہ صاف طور پر یہ مطلب واضح ہو جائے۔ ہر خاص وعام دیکھ سکتا ہے کہ شہد کی مکھی ایک ادنیٰ سا جانور ہے۔ جس میں خدا نے مطلق عقل نہیں پیدا کی جو ایک مسلم بات ہے۔ پس باوجود نہ ہونے عقل کے اگر اس کو خد اکی جانب سے الہام نہیں ہوتا ہے تو فرمائیے۔ ایسا عمدہ مکان، خوش شکل، برابر خانہ، خانہ واریہ مکھی کس طرح بناسکتی ہے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ مرزاقادیانی! باوجود دعویٰ نبوت ومہدویت کے اگر تمام عمر اپنی صرف کریں تو ان کے مکان کی ترتیب وترکیب تک نہیں سمجھ سکتے۔ ویسا مکان بنانا تو درکنار اگر ایسا نہیں تو مرزاقادیانی بناکر دکھادیں۔ ورنہ فرمائیے جب مکھیوں اور کیڑیوں کو بھی الہام ہوتا ہو تو مرزاقادیانی کی کیا خصوصیت اور ان کو اس الہام سے کیا فخر حاصل ہوسکتا ہے؟ مرزاقادیانی! مناسب ہے کہ کوئی اور بات اب اپنی فضیلت کے واسطے سوچ رکھیں۔ ورنہ مکھی کے بہتر الہام ہونے کی وجہ سے اس کا افضل ہونا آپ سے لازم ہوگا۔ پوری تحقیق اقسام الہام کی ہماری کتاب ’’غایت المقصود‘‘ کے حصہ اوّل سے معلوم ہوسکتی ہے۔