اور سراقدس امام حسینؓ کا طشت طلاء میں سامنے رکھے دیکھا۔ پس خیال کیا کہ میں آنحضرت سے بایں دلیل افضل ہوں کہ خدا نے مجھے ملک عطاء فرمایا اور عزیز ومحترم کیا اور معاذ اﷲ حسینؓ کو ذلیل وخوار کیا۔ پس باد نخوت وغرور یزید کے کاخ دماغ میں بھر گئی تو اہل مجلس کی طرف خطاب کر کے حضرت سے شماتت اور مذمت کرنا اور اپنا فخر کرنا شروع کیا۔ پس اس سر اقدس کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہ شخص ہمیشہ مجھ پر فخر ومباہات کیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں افضل ہوں یزید پلید سے اور میری ماں افضل ہے یزید کی ماں سے اور جد میرے افضل ہیں یزید کی جد سے اور باپ میرا افضل ہے یزید کے باپ سے…
پس مرزاقادیانی اب فرمائیے! آپ نے سنت یزیدی پر کیوں عمل کیا۔ کیوں اب بھی متمسک سنت یزیدی آپ نہ کہلائیں گے۔ مگر یہ کہ آپ کہہ دیں کہ تعظیم وتوقیر ان کی تو اہل اسلام پر لازم وواجب ہے۔ نہ ہم پر جس پر ہمارا بھی صاد ہوگا۔
یک حسینے نیست تاگردد شہید
ورنہ بسیار انددر عالم یزید
اجی حضرت! بغیر سوچے سمجھے کیوں ایسے دعوے کیا کرتے ہو۔ جس کی وجہ آپ کو تیر بہدف ہونا پڑتا ہے۔ واہ قادیانی واہ!
اکنوں زحق بترس وحیا کن بخود ببیں
ریشت سفید گشت ودلت ہمچنیں سیاہ
…اگر آپ ایسے ہی بہادر ہیں تو آج کل نقل کیا جاتا ہے کہ حسینؓ کا نام لیوا جلتی ہوئی آگ پر ننگے پاؤں قدم رکھتے ہوئے چلتے ہیں۔ آپ بھی چل دکھائیے۔ اجی حضرت! آپ تو اتنے پر بھی متمکن نہ ہوسکے۔ کیا آپ اہل اسلام کو اپنے مریدوں ہی کے مانند بھولے بھالے سمجھتے ہیں۔ بھلا جب ہر خاص وعام بخوبی جانتا ہے کہ جس وقت کوئی شخص حسینؓ کا نام لیوا لاہور یا کسی اور شہر میں آگ پر چلنے لگا تو بمنادی اشتہار آپ کو اسی آگ پر پاء برہنہ چلنے کے واسطے تحدی کر چکا ہے۔ مگر چونکہ آپ کو مارے خوف کے اس آگ کے چلنے پر جرأت نہ ہوئی تو حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیسے کے امتحان آتش اور حسینؓ جلیل جیسے کے امتحان مصائب کا کب تقابل کر سکتے ہیں۔ پھر اسی قدر بے انصافی ہے کہ اگر حسینؓ کے شرعی حقوق کے رو سے نہیں تو عرفی حقوق سے ہی ان کے مصائب کی داد دی ہوتی۔ جیسا کہ کل یہود ونصاریٰ ومجوس وہنود نے بھی انصافاً حسینؓ کے ان حالات عجیبہ اور مقالات غریبہ کا پرزور اعتراف اور اقرار کیا ہے۔ دیکھو تاریخ یہود ونصاریٰ