قرآن اور حدیث اور قول صحابہ سے ثابت کرکے دکھاویں۔ اب تو میں آپ کو چھوڑوں کاہے کو بحث شروع کریں۔
ناظرین وسامعین! خیال فرماویں مولانا صاحب چونکہ گھر کے بھیدی ہیں۔ ہر پہلو سے زک دینے کو تیار ہوگئے اور بحث شروع ہوئی۔ دو گھڑیاں رکھی گئیں۔ بیس منٹ ایک صاحب تقریر کرے پھر بیس منٹ میں اس کا جواب ہو۔ علیٰ ہذا القیاس! پہلی تقریر فتح الدین (قادیانی) کی طرف سے شروع ہوئی۔ معاونین جلسہ!
فتح الدین… ’’یا عیسیٰ انی متوفیک‘‘ آخر تک اور فلما توفیتنی پیش کیا اور اپنی تقریر بیس منٹ میں ختم کی اور کہا کہ ان آیات سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہے۔
مولوی اﷲ دتہ… میں افسوس سے عرض کرتا ہوں۔ اوّل تو وعدہ پورا نہ ہوا۔ شرط یہ تھی کہ قرآن اور حدیث سے سند ہو اور قول صحابی کا بھی ہونا چاہئے کہ آنحضرتﷺ نے اس آیت کو کیسے بیان فرمایا۔ خیر اب میں عرض کر دیتا ہوں کہ متوفیک اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ باری تعالیٰ نے حضرت مسیح کے اٹھانے کا وعدہ کیا کہ تجھ کو پورا بلا موت اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ چنانچہ اس آیت کی تصدیق کے لئے فرمایا۔ ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ۰ وکان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘ یعنی حضرت مسیح کو کسی نے قتل نہیں کیا۔ یہی یقینی بات ہے بلکہ اٹھا لیا۔ اس کو اپنی طرف کیا صاف معنی ہیں۔ کچھ بھی تاویل کی ضرورت نہیں۔ دیگر متوفیک پر ایک حدیث حضرت کی موجود ہے۔ وھو ہذا!
’’قال ﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۳۶۶)‘‘ یعنی آنحضرتﷺ نے یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ بے شک حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور تحقیق وہ پھر آویں گے تمہاری طرف پہلے دن قیامت کے اور بہت سے دلائل ہیں جو اپنے اپنے وقت پر بیان کروں گا۔ انشاء اﷲ! فقط
فتح الدین… متوفیک کے معنی سوائے موت کے اس جگہ نہیں ہیں۔ جو حدیث مولانا صاحب نے بیان فرمائی ہے وہ مرسل ہے۔ اس لئے قابل حجت نہیں اور (۲۵) جگہ قرآن شریف میں توفی کا لفظ آیا ہے۔ وفات کے معنوں میں جب کہ کل رسول فوت ہوگئے۔ کیوں حضرت مسیح زندہ چھوڑے گئے۔ حضرت مسیح میں کیا فوقیت تھی ہم عیسائیوں کو حضرت مسیح کو مار کر جھوٹا کرتے ہیں اور مولوی صاحب ان کو سچا کرتے ہیں۔ تاکہ عیسائی دلیری سے خدامان لیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت میں فرمایا کہ انی متوفیک وممیتک اور دلائل بہت ہیں جو پھر بیان کروں گا۔