نتیجہ آج تک ظہور میں نہیں آیا۔ دیگر التماس یہ ہے کہ مسئلہ حیات وممات کو صاف کر کے پھر بھی رجوع اسی مسئلہ کی طرف ہوگا۔ (یعنی نزول مسیح علیہ السلام کی طرف) اس لئے میں بڑی عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ جس مسئلہ کی بحث توضیع اوقات کر کے پھر شروع کرنی پڑے گی۔ کیوں اس مسئلہ میں فیصلہ لکھا جائے تاکہ لوگوں پر واضح ہو جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہی نازل ہوں گے یا کوئی اور اگر آپ کا منشاء توضیع اوقات اور، اوراق سیاہی کا ہے تو آپ لوگوں کو بآواز بلند فرمادیں کہ سب لوگ اپنے گھروں کو چلے جاویں فیصلہ کچھ نہ ہوگا۔ وبس فقط مسکین اﷲ دتہ خیاط سکنہ سوہل حال وارد پکیوان مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء
اس کا جواب مرزائی صاحبوں نے تحریری کچھ نہ دیا۔ کھڑے ہوکر پرچہ سابقہ جو اوپر درج ہے سنایا اور کہا کہ اگر آپ حیات وممات میں بحث کرنا نہیں چاہتے تو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات مان لیں۔ ہم نزول کے مسئلے کو شروع کرتے ہیں۔ ورنہ بحث حیات وممات ہم کریں گے۔ جمال الدین!
مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر فرمایا۔ میں تھوڑی دیر کے لئے وفات حضرت مسیح علیہ السلام کی مان لیتا ہوں۔ آپ نزول مسیح میں بحث کریں۔
ناظرین وسامعین مولوی صاحب کے انصاف کی طرف توجہ فرماویں۔ مرزائیوں کو کیسا رول رول کر مارا اور باوجود ماننے وفات مسیح بھی مرزائیوں کی جرأت نہ ہوئی کہ مرزاقادیانی کو مثیل مسیح ثابت کریں۔
معاونین جلسہ
(جمال الدین) ہم تھوڑی دیر نہیں مانتے۔ آپ نے اگر بحث کرنی ہو تو حیات وممات میں کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے پاس سند حیات مسیح کی نہیں۔
مولوی صاحب اﷲ دتہ
میں نے نزول مسیح کے بحث کو اس واسطے شروع کرنا چاہا تھا کہ فیصلہ جلد ہوگا اور اکثر لوگ زمیندار ہیں۔ علمی بحث کو کم سمجھیں گے۔ حیات وممات میں توفی کا جھگڑا ہوگا۔ میں توفی کے معنی بنداور پورا واقع قبض ثابت کروں گا۔ آپ صرف موت ثابت کریں گے۔ اس لئے زمیندار لوگ حیران ہوکر چلے جاویں گے۔ ہم تم دونوں بحث کر کے گھر چلے جاویں گے۔ وبس حاضرین جلسہ کو فائدہ نہ ہوگا۔ خیر اب میں آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ آپ وفات حضرت مسیح کی