محباں میاں جمال الدین وفتح الدین السلام علیکم! واضح ہو کہ اس طرف کل دوستوں کی متفق رائے یہ قائم ہوئی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے بارہ میں گفتگو ہونی چاہئے۔ کیونکہ حاصل سب مسائل مختلفہ فیہ کا اس پر ہے کہ آیا حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول حق ہے یا نہیں۔ اگر حق ہے تو آیا وہی مسیح جو رسول الیٰ بنی اسرائیل تھے نازل ہوں گے یا کوئی اور،سند فریقین کی قرآن مجید وحدیث صحیح سے ہونی چاہئے۔ فقط راقم الحراف عاجز اﷲ دتہ!
ناظرین وسامعین مولانا صاحب کا انصاف دیکھیں۔ مولانا صاحب نے فضول بحث کو ترک فرما کر اسی مدعا کو مدنظر کر دیا کہ بحث حیات وممات میں سوائے توضیع اوقات کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مگر مرزائی صاحبوں نے یہ پرچہ دیکھ کر انکار کیا۔ گویا یہ بحث ان کو موت کافرشتہ نظر آیا کہ خدایا یہ کیسا پہاڑ ہم پر ناگہانی گر پڑا۔ جواب آیا۔
M
حامداً ومصلاً!
آشنا بھائی! اﷲ دتہ صاحب وعلیکم السلام! پس واضح ہو کہ خط آپ کا آیا حال معلوم ہوا کہ پہلے مسئلہ حیات وممات حضرت مسیح علیہ السلام کی بحث شروع کرنی چاہئے۔ جب حیات ممات میں فیصلہ ہو جائے تو ہم نزول مسیح کے جواب دینے کو تیار ہیں۔ اگر حیات مسیح ثابت ہو جاوے تو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اگر ممات ثابت ہوگئی تو پھر دیکھا جائے گا کہ کون مسیح نازل ہوگا۔ بہرحال حیات وممات میں بحث ہونی چاہئے۔
فقط جمال الدین (قادیانی) سیکھواں کلانور ضلع گورداس پور!
ناظرین وسامعین انصاف سے داد دیں کہ مرزائی صاحبوں نے مسئلہ نزول مسیح میں بحث کرنے سے کیا صاف لفظوں میں انکار کیا۔ کیا ضرورت تھی حیات وممات کے مسئلہ میں بحث کرتے؟ آخر رجوع تو اسی طرف ہونا تھا جیسا کہ آگے مرزائیوں سے ظہور میں آئے گا۔ من جانب معاونین جلسہ ہذا!
M
حامداً ومصلاً!
میرے پیارے دوست میاں جمال الدین صاحب وعلیکم السلام! پرچہ آپ کا مطالعہ میں آیا۔ حال معلوم ہوا۔ چونکہ بحث مسئلہ حیات وممات کو عرصہ دراز گزر چکا ہے۔ جس سے کوئی