کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ جس حسینؓ کی طرف آپ نے نظر حقارت سے اشارہ کر کے اپنی افضلیت کا دعویٰ کیا۔ وہی بزرگوار زینت آسمان وزمین ہے۔ یہی زینت عرش الٰہی اور گوشوارہ اس کا ہے۔ یہی پیارا رسول اﷲ اور خدا کا ہے۔ اسی کو پیغمبر خدا منبر پر ہمراہ اپنے لے گئے اور فرمایا اے لوگو! تفضیل دو اس کو تمام خلائق پر جس طرح خدا نے اسے تفضیل دی ہے۔ یہی بزرگوار ہے جو حالت سجدہ میں دوش رسول خدا پر سوار ہوا اور جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے کہ خدا فرماتا ہے جب تک حسینؓ آپ سے نہ اترے تب تک سجدہ سے سر نہ اٹھانا۔ امام شافعیؒ لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ستر مرتبہ رسالت مآبﷺ نے ’’سبحان ربی الاعلے وبحمدہ‘‘ فرمایا۔ اسی حضرت اور اس کے بھائی کو رسول خدا نے فرمایا … اور انہیں کے واسطے فرمایا۔ ’’الحسن والحسین سید شباب اہل الجنۃ‘‘ اور اگر آپکو معلوم تھا تو کیوں ایسے غلط دعویٰ افضلیت سے کل اہل اسلام کے دل دکھائے۔
زین مصیبت وداغہا برسینہ سوزاں ماست
زین غزا صد شعلہ غم بردل بریان ماست
مرزاقادیانی بہادر! آپ کی بہادری کا کیا کہنا نظر بددور کیا بے دھڑک امام حسینؓ پر بقول خود افضل بن بیٹھے۔ اب ہم منتظر ہیں کہ دیکھیں اب کے آپ کی بہادری کیا گل کھلاتی ہے۔ صرف رسول اﷲﷺ اب باقی رہ گئے۔ دیکھیں اس پر آپ کی فضیلت حاصل ہونے کو کب الہام ہوتا ہے…
ایک دفعہ امام حسینؓ معاویہؓ کے پاس تشریف لائے۔ آپ کا غلام ذکوان بھی ساتھ تھا اور معاویہؓ کے پاس بہت سے قریش جمع تھے تو معاویہؓ نے امام حسینؓ سے کہا کہ ابن الزبیرؓ کو دیکھتے ہیں جو حسد کرتا ہے۔ بنی عبدمناف سے تو جھٹ ابن الزبیرؓ نے معاویہؓ کا جواب دے دیا کہ مجھے امام حسینؓ کی افضلیت اور ان کے قرابت رسول اﷲﷺ کا اقرار ہے۔ لیکن اگر تو چاہے تو میں اپنے باپ زبیرؓ کے شرف کو بیان کروں جو کہ بہ نسبت تیرے باپ ابوسفیانؓ کے ان کو حاصل تھا۔ زاکوان غلام امام حسینؓ نے کہا ہمارے آقا وہ ہیں جو کلام کرتے ہیں بعلم اور سکوت فرماتے ہیں۔ بحلم جب خود تم نے ان کی بزرگی کا اقرار کیا تو اب کلام کی ان کو حاجت نہیں۔ اب لیجئے یزید پلید کا دعویٰ میں تاریخی واقعہ۔ اب مختصر اس ملعون کا بھی لکھے دیتا ہوں۔ تاکہ اہل اسلام کو وہ اصلی حالت امام حسینؓ کی اور یزید پلید کا دعویٰ افضلیت یاد آجائے۔ جس وقت یزید نے اپنے تئیں تخت سلطنت پر دیکھا