کیوں اہل انصاف! اب آپ کا انصاف کیا فیصلہ کرتا ہے کہ رسول خدا کو حدیث مذکور میں سچا ہونا چاہئے یا مرزاقادیانی کو اپنے دعویٰ افضلیت میں۔ پس جن بے بصیرتوں نے مرزاقادیانی کی افضلیت کو حسینؓ پر مان لیا کیا وہ حدیث مذکور میں رسول خدا کے مکذب ہوئے یا نہ ہوئے اور آنحضرتﷺ فداہ روحی کا تکذیب کرنے والا کیونکر مسلمان کہلایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ غور سے ملاحظہ کریں تو صرف یہی نکتہ تکذیب مرزاقادیانی کے واسطے کافی ہے کہ مرزاقادیانی کا باپ دادا کیا حسینؓ کے باپ اور دادا کی طرح تھے یا نہیں۔ اجی! حضرت یہاں تو قدرتی طورپر ان کے باوا جان کا نام غلام مرتضیٰ علیؓ رکھاگیا ہے۔ غلام کو آقا سے مناسبت ہی کیا ہوسکتی ہے؟ حضرات ذرا تو انصاف کیجئے۔ مرزاقادیانی کے ذاتی فضائل تو بحث فضیلت ذاتی میں ملاحظہ فرماہی چکے اور نسبی فضائل میں تو ان کے بزرگ اباً عن جد اس خاندان رسالت کے اس وقت تک غلامی کا دم بھرتے آئے ہوں پھر نہیں معلوم کون سا فتور ان کی عقل میں آگیا۔ جس کی وجہ سے رسول اﷲﷺ کے خاندان کی اس نے تذلیل کی اور آنحضرتﷺ کی حدیث مذکور میں تکذیب کی اور فاطمہؓ اور مرتضیٰ علیؓ سے انہیں شرم دامنگیر نہ ہوئی۔ بلکہ بیچارے اپنے باوا جان غلام مرتضیٰ کی روح کو بھی متاذی کیا۔ کیونکہ ان کو اس معصوم اور مطہر خاندان رسالت کی نسبت دعویٰ غلامی ہونے کی وجہ سے میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کی روح مرزاقادیانی سے کسی طرح بھی خوش ہوگی۔ خیر اگر اب ایسے دعویٰ کرنے سے خدا اور رسول اور اہل بیت کو اپنے سے ناراض کردیا تھا تو بلاء سے۔ مگر بندۂ خدا عوام الناس کی زبان بندی کے واسطے کوئی دلیل تو پیش کر دی ہوتی کہ ذات یا صفات یا حسب یا نسب میں بایں دلیل میں حسینؓ سے بہتر ہوں۔ صرف بے دلیل دعویٰ کو آپ کے کون مانے گا۔ دیکھئے! حضرت امیر المؤمنین علیؓ نے جب اپنی بزرگی کا دعویٰ کل خاندانوں پر کیا کس طرح ثبوت اس کا دیا ہے۔ آپ بیچارے کس قطار میں۔ کل دنیا جمع ہو کر اگر چاہیں کہ ان کے خاندان کی فضیلت کو توڑدیں تو محال عادی ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکتے…
یہ کیا سوجھا حسینؓ پر برتری کا دعویٰ کر بیٹھے اور یہ افضلیت صرف ساختہ پر داختہ اپنے الہاموں سے آپ کو حاصل ہوگئی۔ اجی مرزاقادیانی! میدان الہام تو وسیع ہے۔ ہر شخص دنی الہام سے افضلیت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ پھر آپ میں یہ خصوصیت کیا آگئی۔ جب آپ کو دلیل نہ ملی تو الہام کو سپر قرار دے دیا۔
آنکہ اصلا ہر وبرنشاختہ
درچنیں جاہا سپر انداختہ