جاننے والوں سے یہ بات کس طرح پوشیدہ رہ سکتی ہے کہ مرزا قادیانی کے کافرانہ دعوے مجددیت، مہدویت، مسیحیت اور نبوت پر اتنی کاری ضرب لگائی کہ آج تک مرزائیت حضرت کے نام سے لرزاں ہے۔ حضرت کی کتاب ’’شمس الہدایت‘‘ اور ’’سیف چشتیائی‘‘ مرزائیت کی رد میں بے مثال تصانیف ہیں۔
۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء کی تاریخ مقرر ہوئی کہ حضرت گولڑوی اور مرزا قادیانی کے درمیان مناظرہ بمقام لاہور ہوگا۔ ۲۴؍اگست کو حضرتؒ لاہور پہنچ گئے۔ تمام سنی، شیعہ، دیو بندی، اہلحدیث طبقوں نے حضرت گولڑویؒ کو مرزا کے مقابلہ میں اپنا متفقہ نمائندہ مقرر کیا۔ یہ حضرت کی مرکزی اور مجددانہ شان ہے۔ حضرت شاہ صاحب لاہور پہنچ کر برکت علی ہال میں مقیم ہوئے۔ اور مرزا نے لاہور آنے سے انکار کردیا۔ قادیانی جماعت کے بعض بااثر لاہوری مرزائیوں نے مرزا کو لاہور لانے کی بے حد تگ ودو کی مگر ناکام رہے۔
جب قادیانی جماعت کا آخری وفد قادیان سے ناکام لوٹا تو اس جماعت میں انتہائی مایوسی اور انتشار پیدا ہوگیا اور بے شمار لوگوں نے اسی وقت تائب ہونے کا اعلان کردیا۔
مختصراً یہ کہ تحریک خلافت کا دور آیا۔ یا ہجرت۔ تحریک آزادی کا زمانہ تھا۔ یا کانگرس کا پر فریب نعرہ وطنیت کا شوروغل۔ اعلیٰ حضرت گولڑویؒ ؒ نے ہمہ وقت ملت اسلامیہ کی رہنمائی ہمیشہ صحیح سمت کی طرف کی۔ حضرت والا شان کی مجاہدانہ، مجددانہ، فقیرانہ زندگی کو جاننے کے لئے مہر منیر کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔
سیدی شاہ بغداد ؒ کی عظمت اور غریب نواز اجمیری ؒ کی جلالت کا وارث لاکھوں دلوں کو علوم شریعت وطریقت سے منور کرکے جانثاران مصطفی ﷺ کا قافلہ سالار لاکھوں کروڑں آنکھوں کو آبدیدہ چھوڑ کر ۲۹؍صفر ۱۳۵۶ھ بمطابق ۱۱؍مئی ۱۹۳۷ء بروز سہ شنبہ لقاء حق کے لئے اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف تشریف لے گئے۔ اگلے دن شام تک زیارت کے بعد آنحضورؒ کو دفن فرما دیا گیا۔ تو یہ رشد وہدایت کا آفتاب اہل ظاہر کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگیا۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘
میں نے قادیانی پمفلٹ کا فوری جواب لکھنے کے لئے صرف چودھویں صدی کے دو گرامی قدر مجددین ؒکا ذکر خیر کیا۔ ورنہ برصغیر پاک وہند کے خواجگان چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ رحمہم اﷲ اجمعین نے گذشتہ صدی میں اپنے اپنے مقام اور علاقہ میں تجدید دین اور احیاء سنت کا قابل قدر کام سرانجام دیا ہے۔ اﷲ سب کو جزائے خیر عطا کرے۔