ہے۔ جب عقلی طور پر یہ ثابت ہوا تو حسینؓ جیسے ہادی اور اولوالعزم شہید کا مرزاقادیانی جیسے فاسد العقیدہ سے تقابل کر کے فضیلت ثابت کرنے میں باغیرت مسلمانوں کو کس طرح شرم دامنگیر نہ ہوگی؟ ہاں اگر ملائکہ اور انبیاء سے آنجناب علیہ السلام کا مقابلہ حالات فضائل خصائل وغیرہ میں کیا جائے تو یہ جائز تقابل ہے۔
پس ہم ذیل میں آنجناب علیہ السلام کا ملائکہ اور انبیاء اور قرآن سے تقابل کرتے ہیں۔ جس کے ملاحظہ کے بعد مرزاقادیانی کے مریدان منصف مزاج پر بھی واضح ہو جائے گا کہ خواہ خود مرزاقادیانی یا اس کے مرید بمفاد (پیران نمے پرند مریدان مے پرانند) انہیں ترقی اور تعلّی دیتے ہوئے کسی حد تک پہنچا دیں۔ مگر حضرت امام حسینؓ روحی فداہ ان کو اپنے غلاموں میں بھی اگر قبول فرمالیں تو خود مرزاقادیانی اور ان کی ستر پشتوں کے واسطے ہزارہا فخر ومباہات سے زیادہ فخر ہے۔ با بصیرت کے سمجھ لینے کے واسطے تو اسی قدر کافی نکتہ ہے کہ مرزاقادیانی کا نام غلام احمد اور ان کے باوا جان کا نام غلام مرتضیٰ علی جب قدرتی طور پر رکھا گیا ہے تو باوجود دعویٰ غلامی کے ناموں میں بھی اسی خاندان پر فضیلت کا دعویٰ کرنا مرزاقادیانی کے واسطے کس قدر نامناسب اور شرم کی بات ہے؟
نہ زیبد ترابا چنیں ذل وخواری
کہ بر جائیگاہ اکابر نشینی
فضیلت نسبی
پس ہم اس رسالہ میں بالاجمال ایک حدیث پر آنحضرت کی نسبت میں اکتفاء کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ حضرت رسول خداﷺ نے ایک دن بعد خطبہ کے فرمایا: ’’ایہا الناس‘‘ آیا خبردوں تم کو جو کہ مادر اور پدر اور جدوجدہ کی وجہ سے بھی بہتر روئے زمین ہیں۔ عرض کیا ہاں یارسول اﷲ۔ پس فرمایا آنجنابﷺ نے وہ حسنؓ اور حسینؓ ہیں۔ کیونکہ ان کا جدامجد رسول خدا جیسے سید الانبیائ… اور ان کی جدہ خدیجہؓ کبریٰ بنت خویلد… ان کا باپ مرتضیٰ علیؓ جیسے… اور ان کی والدہ فاطمہؓ بنت محمدؐ سید زنان عالمیان ہے۔ کسی کا نسب ان سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ کی حدیث ہے کہ جہاں خاندانوں میں افتراق ہوا وہاں وجود ہمارا بہترین قبائل رہا۔
کجاست درہمہ عالم بدیں شرف نسبی