متوفی ۱۲۶۲ھ کے شاگرد تھے اور شاہ محمد اسحق حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے نواسے اور جانشین تھے۔
علی گڑھ میں حضرت قبلہ عالم ؒ نے قریباً اڑھائی سال تعلیم حاصل کی اور اپنی قابلیت بلند اخلاق اور مثالی کردار کے باعث حضرت استاذ المکرم ودیگر اساتذہ کرام وہم مکتبوں میں بے حد مقبولیت اور توقیر حاصل فرمائی۔
قبلۂ عالم علی گڑھ سے فارغ ہوکر مزید حصول علم اور سند حدیث حاصل کرنے کے لئے سہارنپور میں مولانا احمد علی محدثؒ کے درس میں جاکر داخل ہوگئے۔ سہارنپور میں مولانا احمد علیؒ محدث فن حدیث کے امام تصور کئے جاتے تھے۔ بخاری شریف پر آپ کے حواشی آپ کی علمیت اور کاملیت پر بیّن ثبوت ہیں۔ آپ مولانا عبدالحئی بحر العلوم لکھنویؒ اور شاہ عبدالقادر دہلویؒ کے شاگرد تھے۔ ۱۲۶۱ھ مکہ شریف جاکر خاندان ولی اللّٰہی کے مشہور چشم وچراغ شاہ محمد اسحاق سے سند حدیث حاصل کی اور شیخ الحدیث مولانا احمد علی سہارنپوریؒ سلسلہ صابریہ کے مشہور بزرگ حاجی امداد اﷲ صاحبؒ مہاجر مکی کے استاد تھے۔
قبلہ عالم کی تحقیق علمی اور شرافت، بلندی کردار زہد ریاضت سے واقف ہوکر شیخ الحدیث سہارنپوریؒ نے محسوس کرلیا کہ یہ طالب علم ایک محققانہ بصیرت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ عشق الٰہی کے بھی ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ اس سے علوم ظاہری وباطنی رسمیہ ودہبیہ کے ساتھ ساتھ شریعت وطریقت کی خدمت بھی لینے والا ہے۔ اس لئے اسے زیادہ دیر تک روکنا دین کی خدمت کے منافی ہے۔ چنانچہ ایک روز اچانک اپنے دولت کدہ پر حضرت کی دعوت کی اور پھر سند حدیث سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ وطن تشریف لے جائیں اور دین کی خدمت کیجئے۔
حضرت نے بخاری شریف اور مسلم شریف کی تعلیم لی تھی۔ سند مل گئی۔ جس پر ۱۲۹۵ھ تاریخ مرقوم ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے تقریباً بیس برس کی عمر میں علوم رسمیہ کی تکمیل کرکے وطن کو مراجعت فرمائی تھی۔ اس کے دو سال بعد یعنی ۱۲۹۷ھ میں شیخ الحدیث مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کا انتقال ہوگیا۔
بیعت
قبلہ عالم ؒ نے تعلیم سے فارغ ہوکر تلاش مرشد میں اپنے استاد محترم کے ساتھ شیخ العصر