میں کبھی کسی تبدیلی یا رجوع کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بایں ہمہ ان کی طبیعت میں شدت زیادہ تھی۔ اگر یہ چیز درمیان میں نہ ہوتی تو مولانا احمد رضا خان گویا اپنے دور کے امام ابو حنیفہ ہوتے۔
حضرت مولانا احمد رضا خان ؒ جو عاشق رسول ﷺ آفتاب شریعت وماہتاب طریقت اور چودھویں صدی کے مجدد ۲۵؍صفر المظفر ۱۳۴۰ھ بمطابق ۱۹۲۱ء نماز جمعہ کے وقت بریلی شریف سے لقاء حق کے لئے اس دنیا فانی کو چھوڑ کر چل دئیے۔
چودھویں صدی کے دوسرے مجددؒ
عزت مآب عالی مرتبت سیدنا ومرشدنا اعلیٰ حضرت قبلہ سید پیر مہر علی شاہ صاحب نور اﷲ مرقدہ۔
اعلیٰ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب قدس سرّہ العزیز یکم رمضان ۱۲۷۵ھ بمطابق ۱۸۵۹ء بروز پیروار کو گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے۔ حضرت قبلہ عالم کا نسبی تعلق والدین شریفین کی طرف سے آل رسولﷺ یا فرزندان رسولﷺ طیب وطاہر سلاسل حسنی اور حسینی سے وابستہ ہے۔
حضرت والا نے دینی تعلیم گھر کے پاکیزہ ماحول میں اپنے والد مکرم اور دیگر خاندان کے بزرگوں سے حاصل کی۔ ازاں بعد تکمیل تعلیم کے لئے حضرت مولانا غلام محی الدین ہزاروی کو مقرر کیا گیا۔ جن سے آپ نے کافیہ تک تعلیم پائی۔ اس کے بعد آپ ایک طالب علم کی شان سے گولڑا شریف سے چل کر موضع بھوئی علاقہ حسن ابدالی، ضلع کیمبل پور (اٹک) کے فاضل اجل حضرت علامہ مولانا محمد شفیع قریشی ؒ سے اڑھائی سال میں رسائل منطق قطبی تک اور نحو و اصول کے درمیانہ اسباق کی تعلیم حاصل کی۔ پھر گولڑا شریف سے تقریباً ایک سو میل دور موضع انگہ علاقہ سون ضلع شاہ پور (سرگودھا) کے حضرت مولانا سلطان محمودؒ سے حصول علم کے لئے حاضر خدمت ہوئے۔
لیکن حصول علم کی تشنگی اس مردِ درویش کو پنجاب سے دور تقریباً اندرون ہند تک لے گئی اور آپ حضرت مولانا احمد حسن محدث کانپوری ؒ کے پاس پہنچ گئے۔ چونکہ مولانا کانپوری ہفتہ بعد حج پر جانے کے لئے تیاری فرما رہے تھے۔ تو قبلہ عالم وہاں سے لوٹ کر محدث کانپوری ؒ کے استاد محترم استاد الکل حضرت مولانا لطف اﷲ نور اﷲ مرقدہ علی گڑھی کے درس میں داخل ہوگئے۔
علی گڑھ میں مولانا لطف اﷲ کی ذات گرامی شہرۂ آفاق تھی۔ آپ مفتی عنایت احمد کے شاگرد رشید تھے۔ جو مولانا بزرگ علی علی گڑھی متوفی ۱۲۶۲ھ اور مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی