ماہروی ؒ سے حاصل کیے۔ اور ان کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ انہوں نے آپ کو تمام سلاسل میں اجازت وخلافت بخشی۔ نیز آپ نے حضر ت امام اولیاء ابو الحسن نوری ماہروی ؒ سے بھی روحانی اور باطنی علوم کا اکتساب کیا۔
فاضل بریلوی ؒ نے تمام عمر دین مصطفیﷺ کی اشاعت وتبلیغ میں صرف کردی اور ہزاروں خوش نصیب وسعید دل علم طریقت وشریعت سے منور فرمائے۔
چودھویں صدی کے عظیم مجدد شاہ احمد رضا خان ؒ نے ترجمہ قرآن پاک سے شروع کرکے کم وبیش تین ہزار کے لگ بھگ چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں جن میں ترجمہ قرآن شریف المعروف کنزالایمان، فتویٰ رضویہ ہزار ہزار صفحہ کی ۱۲ جلدوں میں مرتب فرمایا۔ الدولۃ المکیہ بزبان عربی ساڑھے ۸ گھنٹہ دوران سفر سعید مکہ مکرمہ میں علم مصطفی علیہ التحیۃ والثناء پر لکھ کر عرب وعجم کے ہزاروں علماء جن میں موافق ومخالف بھی تھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
مولانا احمد رضا خانؒ نے اپنی ہزاروں تصنیفات کے ذریعہ ہر مسئلہ خواہ شرعی ہو یا تصوف وروحانیت کا مذہبی ہو یا سیاسی، خوردونوش کا ہو یا زہدوعبادت سے متعلقہ قرآن وحدیث سے اتنے زبردست دلائل سے روشنی ڈالی ہے۔ کہ دین حقہ کا ہر گوشہ چمک اٹھا۔ مسلک حق کے چہرہ پر اہل ہوس کی ڈالی ہوئی گرد کچھ اس طرح جھاڑ دی کہ گردوغبار کے ساتھ ہی اہل ہوس بھی بے نشان ہوگئے۔
مولانا شاہ احمد رضا خان ؒ اسلام کے رجل عظیم، صاحب زبان صاحب قلم، صاحب کردار جنہیں عرب وعجم کے علماء عظام نے مجدد ماتہ حاضرہ تسلیم کیا ہے۔ (دیکھیں انوار رضا۔ اعلیٰ حضرت علماء حرمین کی نظر میں) جن کے وصال پر اہل ہند کے اپنے تو اپنے مخالفین کے اکابرین نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان الفاظ سے افسوس کیا کہ آج دنیا میں علم کا چراغ بجھ گیا اور تحقیق کا آفتاب غروب ہوگیا۔
جن کے متعلق شاعر مشرق مفکر اسلام حضرت علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا:
ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہہ پیدا نہیں ہوا۔ میں نے ان کے فتویٰ کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے اور ان کے فتاویٰ ان کی ذہانت، فطانت جودت طبع، کمال فقاہت اور علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عادل ہیں۔
مولانا جورائے ایک دفعہ قائم کرلیتے ہیں اس پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں۔ یقینا وہ اپنی رائے کا اظہار بہت غوروفکر کے بعد کرتے ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنے شرعی فیصلوں اور فتاویٰ میں